اسلام آباد: خیبر پختونخوا کے لیے جانے والی گندم کی نقل وحمل پر پابندی کی شکایت پر پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے داخل کی جانے والی درخواست کو سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ اس طرح کے غیر قانونی اقدامات سے باز رہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حکومتِ پنجاب کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مصطفٰے رمدے کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ 28 مئی کی سماعت کے دوران عدالت کو اس بات کی وضاحت بھی پیش کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے خریدی گئی پنجاب میں پیدا ہونے والی گندم کو صوبے سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

اس کے علاوہ اس بینچ نے جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی جانب سے دائر کی گئی ایک درخواست کی بھی سماعت کی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اس ملک کے بدقسمت شہریوں کو حد سے زیادہ گراں قیمت پر آٹا خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

درخواست گزار نے دلیل دی کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی یہ قیمت بے وسیلہ لوگوں پر ایک بوجھ بن گئی ہے اور خاندان کے لیے تین وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا سخت مشکل ہوتا جارہا ہے۔

تیرہ مئی کو ہونے والی اس مقدمے کی پچھلی سماعت میں عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لاء افسران سے کہا تھا کہ وہ اس حوالے سے آئینی نتائج مرتب کرنے میں مدد دیں کہ بالفرض اگر صوبے معاشرے کے سب سے کمزور طبقات کو ضروری غذائی اشیاء فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی کس حد تک خلاف ورزی ہوتی ہے۔

کل بروز منگل کو بھی عدالت نے اپنے اسی حکم کو دہرایا۔

خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسف زئی کی جانب سے ایک درخواست میں صوبے کی جانب سے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ حکومتِ پنجاب نے اپنی حدود سے خیبرپختونخوا کے لیے گندم کی نقل و حمل پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کررکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے بیس دنوں سے گندم سے لدے ہوئے ٹرکوں کو خیبر پختونخوا جانے سے روکا اور انہیں چیک پوسٹوں پر خالی کروایا جارہا تھا۔

اس درخواست میں کہا گیاہے کہ ناصرف ٹرانسپورٹ کے نظام کو پابندی عائد کرنے کے سلسلے میں ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، بلکہ مارکیٹ میں گندم کی قلت پیدا کرکے آٹے کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔

مزید یہ کہ پاکستان میں کھانے پینے کی اشیاء کی آزادانہ نقل و حمل کے لیے آئین کے آرٹیکل 151 کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔

دوسرے یہ کہ سال 2013-2014ء کے لیے وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا کے لیے گندم کی خریداری کا ہدف 0.450 ملین ٹن مقرر کیا تھا۔

یہ ہدف حالیہ موسم کے اختتام یعنی تیس جون 2014ء تک حاصل کیا جانا ہے۔

مزید یہ کہ خیبر پختونخوا میں فلور ملز کے مالکان کو پنجاب میں خریدی گئی گندم کو حاصل کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

عدالتی کارروائی کے دوران بلوچستان کے ایڈوکیٹ جنرل نظام الدین نے ایک گندم کی قیمت میں کمی لانے کے لیے ایک تجویز پیش کی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ بلوچستان حکومت ہر سال بینکوں سے پانچ ارب روپے قرض لے کر کاشتکاروں سے گندم خریدتی ہے، اور اس کو اس قرضے پر اڑسٹھ کروڑ روپے بطور سود ادا کرنے پڑتے ہیں۔

اگر وفاقی حکومت صوبے کے بجائے یہ سود ادا کردے تو گندم کی قیمت میں فی بوری کم از کم تین روپے تک کی کمی آسکے گی۔

جب درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ توصیف آصف نے عدالت سے کہا کہ وہ حکومت کو یہ حکم جاری کرے کہ وہ بجٹ میں گندم کی قیمتوں میں کمی پر غور کرے، تو عدالت نے واضح کیا کہ ہو قومی اسمبلی کو کسی قسم کی ہدایات جاری نہیں کرے گی۔

جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ’’آپ ایک سیاسی جماعت کے سیکریٹری جنرل کی نمائندگی کررہے ہیں، جس پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی موجود ہے۔‘‘

انہوں نے وکیل سے کہا کہ اپنے موکل سے کہیں کہ وہ یہ معاملہ اسمبلی میں اُٹھائیں۔

اس کے علاوہ عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر وزارتِ نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سیرت اصغر کے تعاون سے چاروں صوبوں کے لاء افسران کے ساتھ ساتھ ان کے فوڈ سیکریٹریز کے ایک اجلاس کا اہتمام کریں اور اگلی سماعت پر ایک تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت عوام کے لیے فوڈ سیکیورٹی کی ضمانت دے کر شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکتی تو اس کو چاہیٔے کہ وہ آئین میں ترمیم کرے اور متعلقہ شقوں کو خارج کردے۔

عدالتی بینچ نے کہا کہ عدالت اس وقت مداخلت کرے گی جب حکومت بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام رہے گی، جس کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں