نمبروں کا کھیل
عام طور پر میں کسی بھی مسئلے پر عمران خان سے اتفاق نہیں کرتا، لیکن اس اخبار میں جب انتخابی اصلاحات پر آن لائن Opinion Poll کی گئی تو میں نے ان کی حمایت میں ووٹ دیا-
کئی سالوں سے پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں ووٹ دیتے ہوئے اور ان کا مشاہدہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ ایک خصوصیت جو ان تمام انتخابات میں مشترک ہے وہ ہے ان کے متنازعہ نتائج- گو کہ، چند ایک کو چھوڑ کر، عام طور پر ان کے نتائج قریب قریب عوام کی رائے کی نمایندگی کرتے تھے-
سچ تو یہ ہے کہ ہم میں ہار کی برداشت نہیں ہے، خواہ معاملہ انتخابات کا ہو یا کرکٹ میچ کا- لیکن جہاں انٹرنیشنل کرکٹ میں امپائر غیر جانبدار ہوتے ہیں، انتخابات میں ایسا نہیں ہے، الیکشن کمیشن کو اکثر و بیشتر جانبدار پایا گیا ہے-
2013 کے انتخابات کے فوراً بعد عمران خان نے الزام لگایا کہ دھاندلی ہوئی ہے، میں اس کو ہمیشہ کی طرح کا ہارنے والوں کا واویلا سمجھا- پی ٹی آئی کے چیف کو اپنی سونامی کی قوت پر اسقدر یقین تھا کہ وہ اس بات کو قبول نہ کرسکے کہ ان کی پارٹی کو قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے نواز شریف کی پی ایم ایل-ن کے مقابلے میں تیسرا درجہ ملا ہے-
لیکن جب عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ مبینہ دھاندلی کے خلاف مہم چلائینگے تو میں نے فوری طور پر تحقیقات کرنے کا ارادہ کیا- اس کا ایک بیحد عمدہ ذریعہ Free and Fair Election Network (فافن) کی ویب سائٹ ہے- جس بات کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی وہ یہ تھی کہ گزشتہ انتخابات کے ایک سال بعد بھی الیکشن سے متعلق بہت سی درخواستیں اب بھی تصفیہ طلب ہیں-
لیکن جس چیز نے مجھے بھونچکا کردیا وہ عمران خان کا یہ دعویٰ تھا کہ ان کے ایک دوست اور پی ٹی آئی کے امیدوار کو اپنی اپیل کی پیروی میں اپنی جیب سے 7.5 ملین روپے خرچ کرنے پڑے!
یہ رقم وکیلوں کی فیس، دستاویزات کی تصدیق اور مختلف عدالتی مصارف پر صرف ہوئی- اگر یہ سچ ہے ---اور کوئی وجہ نہیں کہ میں عمران خان کی بات پر اعتبار نہ کروں--- تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ درجنوں امیدواروں کو اپنے انتخابی نتائج کی تصدیق کروانے کے لئے لاکھوں کی رقم صرف کرنی ہوگی- اور اگر وہ اپنی اپیل جیت جائیں تو انھیں یقینی طور پر اپنی رقم واپس ملنی چاہیئے-
ایک اور عجیب و غریب حقیقت یہ سامنے آئی کہ سب سے زیادہ اپیلیں پی ایم ایل-ن کے امیدواروں کی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے، یعنی وہ صوبہ جہاں پی ٹی آئی کامیاب ہوئی- اس لئے اگر جیتنے اور ہارنے والے دونوں ہی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے، تو یقیناً یہ معاملہ سنگین نوعیت کا ہے-
اس پس منظر میں حکمراں پارٹی کی یہ تجویز کہ انتخابی قوانین میں اصلاحات کی غرض سے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے لائق تحسین ہے- اس سلسلے میں میں بھی اپنی کچھ تجاویز پیش کرنا چاہونگا-
چیف الیکشن کمشنر کے طور پر فخرالدین جی ابراہیم کی تعیناتی کا سبھی نے خیرمقدم کیا تھا- وہ ایک بیحد تجربہ کار ریٹائرڈ جج ہیں جن کی ایمانداری اور آزاد فکر شک و شبہ سے بالاتر ہے- لیکن اس کے باوجود وہ عدلیہ اور بیوروکریسی کے درمیان پھنس گئے-
ہمارے نظام میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو بہت کم اختیارات حاصل ہیں، اور اسے انتخابات کروانے کے لئے صوبائی اسٹاف پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے جو ریٹرننگ افسروں کے ماتحت ہوتے ہیں جبکہ ریٹرننگ افسر صوبائی عدلیہ سے تعلق رکھتے ہیں- دونوں ہی صورتوں میں یہ افسران اور ججز الیکشن کمشنر کے بجائے اپنے اعلیٰ افسران کو جوابدہ ہوتے ہیں- الیکشن میں فرائض انجام دینے کے لئے جو لوگ تعینات کئے جاتے ہیں ان میں سے بڑی تعداد اسکولوں کے اساتذہ کی ہوتی ہے- ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ مقامی جاگیردار یا تھانیدار کے خلاف کھڑے ہونگے حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے-
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ امیدوار اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے جن ایجنٹوں کو مقرر کرتا ہے انھیں یا تو رشوت دیجاتی ہے یا پھر ڈرا دھمکا دیکر وہاں آنے سے روک دیا جاتا ہے- اگر پھر بھی وہ اڑے رہیں تو انھیں پولنگ اسٹیشن سے باہر نکال دیا جاتا ہے-
یہ بات یاد رکھنا چاہیئے کہ نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر دھاندلی ضروری نہیں- عموماً ہار اور جیت کے درمیان فرق 10 فی صد کے اندر اندر ہوتا ہے- چنانچہ چند ہزار بیلٹ پیپرز میں ہیرا پھیری کرکے اکثر حلقوں کے نتائج تبدیل کئے جاسکتے ہیں-
اسی لئے اگر بیوروکریسی لچکدار ہو تو نتائج کو فکس کرنے کے خاصے اچھے مواقع مل سکتے ہیں- اسکے علاوہ ہمارے سیول سرونٹس کے سامنے ان کا اپنا کیریئر بھی رہتا ہے: ان میں سے کتنے ایسے ہونگے جو اہم شخصِیتوں کی ناراضگی مول لینے کے لئے تیار ہوں جبکہ وہ حکمراں پارٹی کے امیدوار بھی ہوں؟
اگرچہ اسلام آباد اور دیگر صوبوں میں الیکشن سے تین مہینے پہلے نگراں حکومت قائم کی جاتی ہے، لیکن یہ طریقہ غیر موثر ثابت ہوا ہے- کیونکہ، ہماری بیوریوکریسی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ یہ انتظام ایک مختصر مدت کے لئے ہے، اور جلد ہی اصل حکمراں واپس آجائنگے-
اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے، جسکی جڑیں اپنے مفادات کی حفاظت میں پیوست ہیں، اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ الیکشن کمیشن ان افسروں کے کیریئر کے امکانات کی پاسبانی کرے جنھیں الیکشن کی نگرانی کے لئے متعین کیا جاتا ہے- اس مقصد کے لئے سول سرونٹس اور ججز کے سروس ریکارڈ میں خصوصی اندراجات کئے جائیں جنھیں خود متعلقہ صوبائی الیکشن کمشنر تحریر کرے اور اس پر دستخط کرے- پولنگ اسٹیشنوں پر CCTV کیمرے نصب کرکے کھلی دھاندلیوں کو کسی حد تک روکا جاسکتا ہے-
لیکن جب تک اصلاحات نافذ نہ ہوں، الیکٹورل ٹریبیونلز کو چاہیئے کہ اوور ٹائم کرے اور نظر ثانی کی درخواستوں کا فیصلہ کرے جنھیں انھوں نے ایک سال سے التوا میں رکھا ہوا ہے-
ترجمہ: سیدہ صالحہ