کراچی: 2014ء کے دوران پولیو کا چھٹا کیس

اپ ڈیٹ 30 مئ 2014
۔ —. فائل فوٹو اے پی
۔ —. فائل فوٹو اے پی

کراچی: عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے پاکستان پر سفری پابندیوں کے نفاذ کو ابھی محض ایک دن ہی باقی رہ گئے تھے کہ کراچی میں جمعرات کے روز پولیو کا ایک اور کیس رپورٹ کیا گیا۔

واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت کی پابندیوں کا مقصد پولیو وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔

کراچی شہر میں نذیر الدین کی ڈھائی برس کی بیٹی ملالہ اس سنگین وبائی بیماری کی اس سال میں اب تک کی چھٹی شکار ہے۔ محکمہ صحت کے حکام نے اس کے اندر پولیو وائرس کی تصدیق کردی ہے۔

حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مہینے کی ابتداء میں ملالہ کی اجابت کے نمونے نیشنل انسٹیٹیوٹ برائے صحت کو بھیجے گئے تھے۔

وزیراعظم کے پولیو سیل نے بھی اس حقیقت کی تصدیق کی ہے۔

ماضی میں پولیو وائرس سے متاثرہ دیگر بہت سے بچوں کی طرح یہ بچی بھی پولیو مہم کے دوران پولیو ویکسین کے ٹیکے پینے سے محروم رہی تھی۔ اس لیے کہ اس کے خاندان کی جانب سے اس کو ٹیکے پلوانے سے انکار کردیا گیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ بچی کا تعلق سائٹ ٹاؤن کی کنواری کالونی، یونین کونسل-9 میں مقیم خاندان سے ہے۔

ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ ہماری متواتر مہموں کے دوران اس بچی کے خاندان نے ایک مرتبہ بھی پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کی اجازت نہیں دی، جس طرح سلطان آباد گڈاپ کی ایک بیس سال کی بچی کے ساتھ ہوا تھا، دو ہفتے پہلے وہ بھی اسی کی طرح اس مرض کا شکار ہوئی تھی۔

کراچی میں مسلسل پولیو کے کیسز سامنے آنے سے شہری اور صوبائی محکمہ صحت کے حکام انتہائی پریشان ہیں۔ جبکہ اسی شہر کو 2012ء میں پولیو سے آزاد قرار دیا گیا تھا۔

ایک اہلکار نے بتایا ’’یہ انتہائی خوفناک ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقداما ت اُٹھائے اور خطرات بھی مول لیے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان بچوں کے اپنے والدین اس مہلک وائرس کو دعوت دے رہے ہیں۔‘‘

اب تک شہر میں پولیو کے چھ کیسز دریافت ہوئے ہیں، ان میں سے تین صرف گڈاپ میں ہیں، جبکہ ایک ایک بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن اور سائٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس بچی کا خاندان چند سال پہلے فاٹا سے کراچی منتقل ہوا تھا، اور یہ بچی کراچی میں پیدا ہوئی تھی۔

تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس خاندان نے کچھ عرصہ قبل قبائلی علاقوں کا دورہ کیا تھا، جو پولیو وائرس کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔

تاہم ماضی کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خاندان نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے کی درخواست کو رد کردیا تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ اب تک سامنے آنے والے پولیو سے متاثرہ چھ بچوں میں سے چار لڑکیا تھیں، اس سے یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کہیں محض لڑکی ہونے کی وجہ سے پولیو کے قطرے پلوانے میں امتیازی سلوک تو نہیں کیا جارہا ہے۔

تاہم ایک اہلکار نے کہا کہ ’’شاید یہ مسئلہ نہ ہو۔ ایسے گھرانے جو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کرتے ہیں، ان کا یہ انکار کسی صنف سے قطع نظر اپنے ہر بچے کے لیے ہوتا ہے۔ لڑکیوں میں اس کا زیادہ تناسب ہونا محض اتفاقیہ ہے۔‘‘

عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے پاکستان پر عائد کی جانے والی سفری پابندیوں کے بعد پولیو ویکسین پلوانے کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے کہ اس سال پاکستان میں سامنے آنے والا پولیو کا ریکارڈ عالمی سطح پر نہایت خراب صورتحال پیش کررہا ہے۔

حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کا ادارہ بین الاقوامی پروازوں کے مسافروں کو ایئرپورٹ پر پولیو ویکسین پلوانے کے انتظامات میں مصروف ہے۔ جبکہ صوبائی حکومتوں کو بھی ایک حکمت عملی دے دی گئی ہے۔ یکم جون سے پاکستان سے دنیاکے دیگر ممالک میں جانے والے مسافروں کے لیے یہ لازم ہوگا کہ وہ پولیو کی حفاظتی ویکسین کا تصدیق نامہ پیش کریں۔

لیکن صوبائی حکام کے پاس محض پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لیے ویکسین کا اسٹاک موجود ہے، انہوں نے مرکز سے کہا کہ پولیو ویکسین کی ایک لاکھ پچاس ہزار شیشیاں فراہم کی جائیں۔ہر شیشی بیس خوراکوں پر مشتمل ہو۔

سندھ حکومت نے تمام ضلعی ہسپتالوں اور سینئر ضلعی حکام کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ ویکسین کا پلوانے کا انتظام کریں اور ملک سے باہر جانے والے افراد کو پولیو ویکسینیشن کا سرٹیفکیٹ جاری کریں۔

اس شہر میں جہاں 2014ء کی پہلی ششماہی کے دوران چھ کیس ریکارڈ پر آچکے ہیں، پچھلے سال کے دوران پولیو کے متاثرہ آٹھ بچوں کے کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔

پاکستان میں پولیو کا ریکارڈ بہت سنگین ہے، جہاں پوری دنیا کے 100 کیسز میں سے ستر کیسز دریافت ہوچکے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Asif May 30, 2014 02:44pm
ایسے والدین کے خلاف بہی سخت کارروائی کی جائے.