گجرات یونیورسٹی ن لیگیوں کے دباؤ میں

اپ ڈیٹ 05 جون 2014
گجرات یونیورسٹی کا ایک طائرانہ منظر۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
گجرات یونیورسٹی کا ایک طائرانہ منظر۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
گجرات یونیورسٹی۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
گجرات یونیورسٹی۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

گجرات: مسلم لیگ نون کے ایک رکن پارلیمنٹ کے مطالبات پر عملدرآمد نہ کرنے پر یونیورسٹی آف گجرات کی انتظامیہ اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہے۔

مسلم لیگ نون کے یہ رکن پارلیمنٹ گجرات یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کا ایک حصہ ہیں اور انہوں نے باضابطہ طور پر حکومت اور اپنی پارٹی کی قیادت کے پاس یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف شکایت بھی درج کروا رکھی ہے۔

ڈان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ گجرات سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ نون کے اراکین پارلیمنٹ نے گزشتہ ہفتے حمزہ شہباز شریف سے ملاقات کی اور انہیں یونیورسٹی کے خلاف اپنی شکایات سے آگاہ کیا۔

اس ملاقات میں شریک ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ نے گجرات یونیورسٹی کی انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ خصوصاً ملازمتوں کے سلسلے میں ان کے سفارش کردہ لوگوں کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کرتی ہے، مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے انہیں اپنے حلقۂ انتخاب شرمندگی سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔

گجرات سے پنجاب اسمبلی کے تین اراکین یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کے رکن ہیں، جن کے نام نوابزادہ حیدر مہدی، معین نوازش وڑائچ اور حاجی عمران ظفر ہیں۔انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ پر ملازمتوں میں بے ضابطگیوں کا الزام بھی عائد کیا، اس حقیقت کے باجود کہ پچیس اپریل کو ہونے والے سینڈیکیٹ کے آخری اجلاس کے دوران سیلیکشن بورڈ کی سفارشات کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ان کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا تو سینڈیکیٹ کی ان کی رکنیت بے کار ہے۔

اس موقع پر حمزہ شہباز نے اس وفد سے کہا کہ وہ گجرات یونیورسٹی میں مبینہ بے ضابطگیوں پر ایک تحریری رپورٹ جمع کرائیں، اور سینڈیکیٹ کے چار اراکین جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جن کے نام اوپر درج کیے گئے ہیں، اور ایک اور رکن ڈاکٹر اعجاز بشیر ایک رپورٹ تیار کررہے ہیں۔

سینڈیکیٹ کے چار اراکین نے وائس چانسلر ڈاکٹر نظام الدین کو ایک خط تحریر کیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ اپنے پچھلے اجلاس میں سینڈیکیٹ نے سیلیکشن بورڈ کی سفارشات کی توثیق نہیں کی تھی اور سینڈیکیٹ ایسا اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کے سامنے ملازمتوں کے اشتہارات اور منتخب ملازمین کی تفصیلات پیش نہ کردی جائیں۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یونیورسٹی نے منتخب امیدواروں کو اس جملے کے ساتھ لیٹرز جاری کیے تھے کہ سینڈیکیٹ کی جانب سے سیلیکشن بورڈ کی منظوری دے دی گئی ہے، لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔

حکومتِ پنجاب نے مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے تین مزید اراکین پارلیمنٹ کو بطور سینڈیکیٹ ممبر مقرر کیا تھا، برخلاف اس کے کہ یہ تین نشستیں ممتاز شہریوں کے لیے مخصوص تھیں، یہ سنڈیکیٹ کی رکنیت کے لیے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے گجرات یونیورسٹی کے لیے نامزد کردہ اراکین اسمبلی کی موجود تین نشستوں کے علاہ تھیں۔

گجرات یونیورسٹی کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی فیصلہ ساز کمیٹی میں سیاستدانوں کی اضافی نمائندگی سے انتظامیہ کو معاملات چلانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اس لیے کہ سینڈیکیٹ میں اراکین پارلیمنٹ اکثریت کی وجہ سے غیرضروری مطالبات بڑھتے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نون کے اراکین پارلیمنٹ کا یونیورسٹی پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے کہ ان کی سفارشات پر ملازمتوں کے متلاشیوں کو کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز کی بنیاد پر بھرتی کیا جائے، جو کہ یونیورسٹی کے موجودہ قواعد و ضوابط کی بنیاد پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

مسلم لیگ نون میں ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ نے گجرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے خلاف ایک مہم شروع کررکھی ہے، تاکہ وہ اس عہدے پر اپنی تیسری مدت حاصل نہ کرسکیں، ان کی دوسری مدت اس سال اکتوبر میں ختم ہوجائے گی۔

جب مسلم لیگ نون کے رکن صوبائی اسمبلی نوابزادہ حیدر مہدی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان رپورٹوں کو مسترد کردیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں ان کے سفارشی امیدواروں کو ملازمتیں دی جائیں۔ انہوں نےدعویٰ کیا کہ وہ گجرات یونیورسٹی میں جاری بے ضابطگیوں کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں۔

اسی دوران گجرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نظام الدین نے سینڈیکیٹ کا ایک اور اجلاس طلب کیا ہے، جس میں اراکین کی جانب سے اُٹھائے گئے مسائل پر بات کی جائے گی، اور امکان ہے کہ یہ اجلاس 19 جون کو منعقد ہوگا، جس میں اگلے مالی سال کے لیے یونیورسٹی کا بجٹ بھی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں