'مذہبی انتہا پسند ملک تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں'

14 جون 2014
پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کر رہے ہیں۔ —. فوٹو ڈان
پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کر رہے ہیں۔ —. فوٹو ڈان

اسلام آباد: مذہبی انتہاپسند ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جبکہ ریاست ان کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ ان لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے، جو عسکریت پسندوں کو مسلمان سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ معاشرے کا ایک حصہ ہیں۔

اس طرح کے خیالات کا اظہار ایک سمینار میں کیا گیا، جس کا عنوان تھا ’’مذہبی انتہاء پسندی اور عدم برداشت: ریاست اور معاشرے پر اس کے اثرات‘‘۔ اس کا اہتمام پاکستان پیپلزپارٹی کے انسانی حقوق کے سیل نے کیا تھا۔

سینیٹ کے قائدِ حزبِ اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ انتہاء پسندوں کے پاس ایک نکاتی ایجنڈا ہے، وہ یہ کہ ملک کو دنیا بھر سے الگ تھلگ کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ وہ شہریوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ غیرملکی سیاحوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔

سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ ’’سب سے پہلے انہوں نے سری لنکن ٹیم پر حملہ کیا، اور پھر انہوں نے نانگا پربت پر سیاحوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد انہوں نے پولیو ورکروں کو ہلاک کرنا شروع کردیا، جس کے نتیجے میں بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں پر عالمی ادارۂ صحت نے سفری پابندیاں عائد کردیں۔حال ہی میں انہوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کردیا، جس سے ملک میں کام کرنے والی بین الاقوامی ایئرلائنز حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔‘‘

انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت گہری نیند سورہی ہے اور دہشت گرد مسلسل حملے کررہے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ انتہاء پسند عناصر اقلیتوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔

اعتزاز احسن نے سوال کیا ’’جب بھی دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ہمارے لوگوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوجاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اقلیتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مہربانی فرما کر مجھے آپ یہ بتائیے کہ پاکستان میں آپ اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں۔‘‘

انہوں نے یاد دلایا کہ قائدِ اعظم نے اقلیتوں کو مکمل احترام دیا تھا، یہاں تک کہ اقلیتوں سے دو وزراء کا تقرر بھی کیا تھا۔

تدریسی نصاب میں تبدیلی کے ذریعے بچوں کے ذہن میں نفرت اور عسکریت پسند ی کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے جنرل ضیاءالحق کو موردِ الزام ٹھہرایا۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ ’’اب کوئی بھی انتہاء پسندوں کے خلاف آواز اُٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمیں ان لوگوں کا ذہن تبدیل کرنا ہوگا، جو دہشت گردوں کی حمایت کررہے ہیں۔‘‘

انہوں نے ملکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ امن امان کی صورتحال روز بروز بدتر ہوتی جارہی ہے، لیکن حکومت اس مسئلے کو دور کرنے کے سنجیدہ اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔

سینیٹر اعتزاز احسن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں ملک کے دیگر حصوں سے سینکڑوں غیر مسلح سکھوں نے پارلیمنٹ ہاؤس پر مظاہرہ کیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیکیورٹی ناکام ہوچکی ہے۔

پی پی پی انسانی حقوق سیل کے جنرل سیکریٹری مصطفٰے نواز کھوکھر نے کہا کہ انتہاپسند عناصر اور ایسی ذہنیت نے ملک کا امن تباہ کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ خطہ صوفی ازم، امن اور محبت کے حوالے سے پہنچانا جاتا تھا، لیکن اب یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عسکریت پسندی کو روکنے اقدامات اُٹھائے جائیں۔

مصطفٰے نواز کھوکھر نے کہا کہ ہمیں اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات اُٹھانے ہوں گے، دوسری صورت میں ہمارا اگلی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ جو پارٹی کے ہیومن رائٹس سیل کی کوآرڈینیٹر بھی ہیں، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ لگ بھگ ساٹھ ہزار افراد دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ترقی پسند ریاست تھا، لیکن مذہبی انتہاء پسند اس کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

نفیسہ شاہ نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی کو کتاب لکھنے پر زبردست تنقید کی گئی تھی، لیکن دوسری جانب یہاں وفاقی دارالحکومت میں ایک لائبریری کا نام اسامہ بن لادن کے نام پر رکھ دیا گیا۔

سینئر صحافی زاہد حسین نے کہا کہ ملک کو موجودہ بحران سے باہر نکالنے کے لیے ہمیں لوگوں کی ذہنیت تبدیلی کرنی ہوگی۔

انہوں نے یاد دلایا کہ حال ہی میں ایک پندرہ برس کے لڑکے نے لاہور میں پچاس برس کے اس شخص کو قتل کردیا تھا، جس پر توہین رسالت کا الزام تھا۔

زاہد حسین نے کہا کہ مذہبی انتہاءپسندی اور عدم برداشت کی وجہ سے اس لڑکے کو یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ ایک قتل کا ارتکاب کررہا ہے۔ مزید یہ گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا اعتراف کرنے والے کو ہیرو بنا دیا گیا ہے۔

عسکریت پسندوں کو غیرضروری اہمیت دینے کے ذریعے طالبانائزیشن کے فروغ کے حوالے سے انہوں نے میڈیا ہاؤسز پر بھی تنقید کی۔

پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر رومانہ بشیر نے سیسل چوہدری کی مثال کا حوالہ دیا اور سوال کیا کہ ملک میں اہم سیاسی عہدوں کے لیے آخر اقلیتوں کے لیے کیوں راستہ کھلا ہوا نہیں ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ دیگر عقائد اور شناخت کے لوگ بھی اپنے مسلمان ہم وطنوں کی طرح اتنے ہی محبّ وطن ہیں۔

معروف شاعر حارث خلیق نے اپنے اشعار کے ذریعے بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور انتہاء پسندی اور اس کے معاشرے پر اثرات کے حوالے سے روشنی ڈالی۔

اپنی نظم کے ذریعے انہوں نے آسیہ بی بی کی حالت زار پر بھی روشنی ڈالی، جن پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

سیمینار کے تمام شرکاء نے حارث خلیق کے اشعار کی تعریف کی۔

تبصرے (0) بند ہیں