شمالی وزیرستان کا دوبارہ حصول

20 جون 2014
عسکریت پسندی کے خلاف لڑنے کے لئے کابل اور اسلام آباد کے بیچ تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے
عسکریت پسندی کے خلاف لڑنے کے لئے کابل اور اسلام آباد کے بیچ تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے

پاکستان کی مسلح شورش کے خلاف طویل جنگ میں یہ یقیناً سب سے اہم جنگ ہے- آخر کار طویل رد و کد کے بعد، حکومت نے شمالی وزیرستان میں ایک فل اسکیل آپریشن کرنے کا آرڈر جاری کر ہی دیا جسے بجا طور پر دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز قرار دیا جاتا ہے-

ہزاروں زمینی سپاہی، جنہیں ایئر فورس کے جیٹس کی مدد بھی حاصل ہے، حملے کے اعلان کے بعد حرکت میں آ چکے ہیں تاکہ اس اسٹریٹیجکلی اہم علاقے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا جا سکے-

تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد، دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کا فیصلہ سامنے نظر آ رہا تھا، تاہم کراچی ائیرپورٹ پر ہونے والے خونی حملے نے اس فیصلے کے رستے سے آخری رکاوٹ بھی دور کر دی- شریف حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ ریاست پر ایسے وحشیانہ حملے کرنے والوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرے- اس واقعے نے نہ صرف پورے ملک کو ہلا دیا بلکہ ایکشن لینے کا مطالبہ بھی مزید آواز پکڑ گیا-

چیلنج کا جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا- قومی قیادت کے تذبذب کی وجہ سے پہلے ہی بہت وقت ضائع ہو چکا تھا اور مذاکرات کے ذریعے امن کے حصول کے بارے میں نہ ختم ہونے والے مباحثوں نے ریاست کی کمزوری کو عیاں کر دیا تھا-

فیصلے کے باوجود وزیر اعظم اب بھی صورتحال اپنے ہاتھ میں لینے میں تامل کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے ساری باگ دوڑ فوج کے حوالے کی ہوئی ہے-

گو کہ تازہ ترین کیمپین بہت ہی اہم ہے پر یہ اب تک سیکورٹی فورسز کی جانب سے اس پرخطر پہاڑی علاقے میں ایک دہائی سے جاری جنگ میں کی جانی والی کسی بھی دوسری کیمپین کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ ہے-

اس حقیقت کے باوجود کہ اب ملٹری پہلے کے مقابلے میں شورش کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے جنگ لڑتے لڑتے تجربہ کار ہو چکی ہے، پھر بھی یہ کوئی آسان جنگ نہیں ہوگی- ایک بات تو یقینی ہے کہ یہ ایک طویل جنگ ہو گی-

پاکستان آرمی شمالی وزیرستان میں پہلی بار آپریشن نہیں کر رہی- اس سے پہلے 2004 میں شروع کیا جانے والا آپریشن، دو سال تک جاری رہنے والی شدید لڑائی کے بعد، قبائلی عسکریت پسندوں کے ساتھ معاہدے پر ختم ہوا تھا- اس معاہدے سے عسکریت پسندوں کو نہ صرف دوبارہ ریگروپ ہونے کا موقع ملا بلکہ انہوں نے اپنی پوزیشنز بھی مزید مضبوط کر لیں- اب انہیں وہاں سے ہٹانا زیادہ دشوار ہو گا-

سات قبائلی ایجنسیوں میں سب سے بڑا، شمالی وزیرستان، انتہائی خطرناک مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کے لئے ایک جنّت کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ ملک کے وجود کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں-

دوسرے ملکوں میں ہونے والے بہت سے دہشت گرد حملوں کی جڑیں بھی اسی علاقے سے ملتی ہیں- خفیہ ایجنسیوں کے اندازوں کے مطابق علاقے میں غیر ملکی جنگجوؤں کی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے جس میں سے آدھے سے زیادہ یعنی تقریباً 4,800 ازبک بتائے جاتے ہیں-

یہ ازبک نہ صرف کراچی ائیرپورٹ پر حملے میں ملوث تھے بلکہ بہت سے دوسرے ہائی پروفائل حملوں میں بھی شامل تھے جیسے بنوں جیل، مہران اور کامرہ بیس پر حملے وغیرہ-

ازبکوں کے علاوہ، دیگر غیر ملکی عسکریت پسند گروپ بھی ہیں جیسے چیچنیا کے الگ تھلگ نیٹ ورکس، لیبین اسلامک فائٹنگ گروپ اور مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ سے تعلق رکھنے والے چین کے ایغر عسکریت پسند-

بتایا جاتا ہے کہ زیادہ تر عرب عسکریت پسند یا تو علاقے میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں یا پھر انہوں نے علاقہ چھوڑ دیا ہے-

گزشتہ سالوں میں ہزاروں پنجابی عسکریت پسند بھی وزیرستان منتقل ہوئے ہیں اور یہاں انہوں نے سرحدی علاقوں میں اپنے ٹریننگ کمپس قائم کر لئے ہیں- قانون سے ماورا اس علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے لڑی جانے والی جنگ اس لئے بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ افغانستان کا اینڈ گیم نزدیک آ رہا ہے- القاعدہ سے جڑے گروپس کی موجودگی سے نہ صرف پاکستان کی طویل مدتی سلامتی کو خطرہ ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ خطرہ پورے خطے کے لئے ہے-

پاکستانی سیکورٹی فورسز کے لئے ایک چیز جو بہت زیادہ تشویش کا سبب ہے وہ دہشت گردوں کا سرحد پار کر کے افغانستان چلے جانا جو کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے اور وہاں کے علاقوں کو سرحد پار حملوں کے لئے اپنی محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرنا-

پاکستان ملٹری نے افغان سیکورٹی فورسز سے سرحد سیل کرنے کی درخوست کی ہے تا کہ ان دہشت گردوں کے خاتمے میں مدد مل سکے جو سرحد پار جانے کی کوشش کریں- تاہم دونوں پڑوسیوں کے درمیان موجود تناؤ کو دیکھتے ہوئے ایسا شاید نہ ہو سکے-

کابل اور اسلام آباد کے درمیان عسکریت پسندی کے خلاف لڑنے کے لئے تعاون اور مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے- دونوں ملکوں کی سلامتی ایک دوسرے کے ساتھ جیسے آج جڑی ہوئی ہے، اس سے پہلے شاید کبھی نہیں تھی- سرحد کے دونوں جانب عسکریت پسندوں کی محفوظ پناگاہوں کی موجودگی سے، خاص طور پر افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کی واپسی کے بعد، خطّے کے لئے سنگین خطرات ہیں-

اس قانون سے ماورا علاقے کا کنٹرول حاصل کرنا یقیناً اس حملے کا ایک نمایاں مقصد ہے- تاہم صرف ملٹری ایکشن اس پیچیدہ مسئلے کا لونگ ٹرم حل نہیں- اس کے لئے حکومت کو قبائلی علاقوں کو ان کی تنہائی اور پسماندگی سے نکالنے کے لئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے-

حالیہ آپریشن سے ہمیں یہ عظیم موقع ملا ہے کہ دیر سے ہی سہی پر اس غیر واضح نیم خودمختار خطّے کو بقیہ ملک کے ساتھ ملانے کے لئے کوششیں کی جائیں-

شمالی وزیرستان میں جاری ملٹری آپریشن، ملک میں ہونے والی پرتشدد انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف وسیع جنگ کا بس ایک پہلو ہی ہے- عسکریت پسند گروپوں کے ملک بھر میں مضبوط نیٹ ورکس موجود ہیں- ایک لونگ ٹرم حل کے لئے، حکومت کو چاہئے کہ وہ سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی ترتیب دے- مختلف خفیہ ایجنسیوں کے درمیان کوآرڈینیشن بھی بہتر بنانے اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے-

جو چیز سب سے زیادہ مثبت ہے وہ ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ایک وسیع سیاسی اتفاق رائے- دائیں بازو کے چند گروپوں جیسے جماعت اسلامی کے سوا تمام سیاسی پارٹیاں ملٹری کیمپین کی مل کر حمایت کر رہی ہیں- تاہم اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک مظبوط داخلی سیکورٹی نریٹو ڈیولپ کیا جائے-

ہمیں قبائلی علاقوں میں کئے جانے والے پچھلے آپریشنز سے بھی سیکھنا چاہئے- اس اپروچ میں ایک بڑی خامی یہ تھی کہ اس بات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ ایک باقاعدہ انتظامی سسٹم قائم کیا جائے- اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان علاقوں پر حکومت کی گرفت ڈھیلی ہی رہی-

سوات اور جنوبی وزیرستان، مکمل طور پر نہ جیتی جانے والی جنگوں کے حوالے سے روشن مثالیں ہیں- فوج کی موجودگی مسئلے کا پائیدار حل نہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ملٹری آپریشن کے ساتھ ساتھ ایک باقاعدہ سویلین سسٹم بھی قائم کیا جائے- اس کے بغیر، آپریشن کے مقاصد کبھی بھی پوری طرح سے حاصل نہیں ہو سکیں گے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: شعیب بن جمیل

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں