مسلم لیگ نواز بمقابلہ پیپلز پارٹی

08 جولائ 2014
آج مسلم لیگ نواز کی حکومت کو جن خطرات کا سامنا ہے وہ اس کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔
آج مسلم لیگ نواز کی حکومت کو جن خطرات کا سامنا ہے وہ اس کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔

لاہور میں مولانا طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر کھڑی رکاوٹیں دور کرنے کے نام پر پولیس نے بربریت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے چودہ افراد کو ہلاک کر دیا۔ میڈیا میں شور و غل دیکھتے ہوئے میرے ایک پختون دوست نے کہا کہ دیکھو پنجاب میں 10 افراد (پہلے دن) کی ہلاکت پر پورے پاکستان میں تھرتھلی مچ گئی ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں پچھلی دو دہائیوں سے پختون عوام کا قتل عام جاری ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار بلوچستان کے قوم پرست رہنما بھی کرتے ہیں کہ پنجاب کو اس وقت تک ہوش نہیں آئے گا جب تک لاہور میں دس پندرہ ہزار پنجابی جوان ریاستی دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنتے۔

لاہور میں ہونے والا واقعہ مسلم لیگ نواز کے طرز حکومت کی واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ انتخابات سے پہلے عمومی تاثر یہ تھا کہ اگر میاں صاحب اس دفعہ اقتدار میں آئے تو وہ ایک مختلف انسان ہوں گے اور ملک میں جاری خلفشار اور سماجی و معاشی مسائل سے نبٹنے کے لیے بہتر حکمت عملی اپنائیں گے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت تو جیسے تیسے کرکے اپنا وقت گذار گئی مگر ایسا لگتا ہے کہ نواز حکومت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد میڈیا ہر تین چار ماہ بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کی رخصتی کی پیشین گوئیاں کرتا رہتا تھا اور پیپلزپارٹی نے اس پراپیگنڈے کا سیاسی مقابلہ کیا۔

دیکھا جائے تو مسلم لیگ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے زیادہ سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بے انتہا ظلم و ستم سہنے کے بعد اسے یہ بات سمجھ آگئی کہ اگر ملک کو آگے لے جانا ہے تو پھر انتقامی سیاست ختم کرنا ہو گی۔ یہی وجہ تھی کہ 2008 کے انتخابات جیتنے کے بعد آصف علی زرداری نے تمام تر اختلافات اور ماضی کی تلخیوں کو بھلاتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت کرنے کی پیش کش کی اور اس پر عمل بھی کیا۔ جبکہ مسلم لیگ نواز انتقام کی آگ میں جلتی رہی اور نا صرف حکومت سے علیحدہ ہو گئی بلکہ اکثر و بیشتر غیر سیاسی قوتوں کی پشت پناہی بھی کی۔

آج عمران خان کی مڈٹرم الیکشن کی جو خواہش ہے بعینہ یہی خواہش پیپلز پارٹی کے دور میں نوازشریف کی تھی۔ نوازشریف سمیت مسلم لیگ نواز کے تمام رہنما این آر او کے خاتمے کے لیے غیر جمہوری قوتوں کی مدد کرتے رہے۔ شہباز شریف کی سیاست تو مرکز مخالف اور مڈٹرم انتخابات کی سیاست تھی۔

دوسری طرف چیف جسٹس افتخار چوہدری نے آزاد عدلیہ کے نام پر اپنی متوازی حکومت قائم کر رکھی تھی جسے اسٹیبشلمنٹ، مسلم لیگ نواز اور آزاد میڈیا کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ نواز شریف تو کالا کوٹ پہن کر حسین حقانی کیس میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں عدالت بھی چلے گئے تھے۔

مسلم لیگ نواز پانچ سال صبر کرنے کی بجائے مخاصمت کی سیاست کرتی رہی۔ یہ آصف علی زرداری کا سیاسی شعور اور اس کی پختگی تھی کہ وہ تمام تر سازشوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح نہ صرف پانچ سال پورے کر گئے بلکہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ جیسی بنیادی اصلاحات بھی کر گئے۔

2013 کے انتخابات میں نوازشریف بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ نواز کو کامیابی ملنی ہی تھی. وسیع تر قومی مفاد میں پیپلز پارٹی نے نہ صرف نتائج کو تسلیم کیا بلکہ مسلم لیگ نواز کو بھرپور حمایت کا یقین دلایا کہ ملک کے سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ نواز حکومت پانچ سال پورے کرے اور وہ اس حکومت کو ختم کرنے کی کسی بھی سازش کی حمایت نہیں کریں گے۔

آج مسلم لیگ نواز کی حکومت کو جن خطرات کا سامنا ہے وہ اس کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ علامہ طاہر القادری نے غیر جمہوری قوتوں کے اشارے پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی گرانے کی کوشش کی تھی بلکہ اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے انہیں اسلام آباد جانے کے لیے پوری سہولتیں بھی مہیا کیں جس کا مقابلہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تمام سیاسی اتحادیوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا کر کیا جس نے طاہر القادری کے انقلاب کو بے اثر کیا لیکن مسلم لیگ نواز نے سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے انہیں کچلنے کا فیصلہ کیا اور پھر اپنے ہی تھوکے کو چاٹنا پڑا۔

عمران خان کا معاملہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے۔ خان صاحب نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے فوری طور پر کچھ حلقوں میں دوبارہ گنتی اور ووٹوں پر انگوٹھوں کی تصدیق کا معاملہ اٹھایا مگر بادشاہ سلامت نے ایسی کسی بھی درخواست کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور الٹا فوری پر نادرا کے چئیرمین کو برطرف کر دیا۔

الیکشن ٹربیونلز جنہیں چار ماہ میں انتخابی اعتراضات پر فیصلہ دینا تھا، چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔ اگر نواز حکومت فوری طور پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کرواتی اور چار پانچ سیٹیں چھوڑنی بھی پڑتیں تو اس سے اس کو اخلاقی فتح حاصل ہوتی لیکن ایسا کرنا تو بادشاہ کی شان کے خلاف ہے۔ اب انہیں عمران خان کے جلسے جلوس جمہوریت کے لیے خطرہ نظر آتے ہیں۔

یہی حال جنرل مشرف کے معاملے کا ہے۔ نواز شریف جس انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں اس کا نشانہ پاکستان کے غریب عوام ہیں اور پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لیے زہر قاتل ہے۔ اگر آصف علی زرداری بھی انتقام کی آگ میں جلتے تو آج شاید نوازشریف وزیراعظم نہ ہوتے اور سعودی عرب میں بیٹھے ہی تجارت کررہے ہوتے۔

تبصرے (0) بند ہیں