لاہور: یہ بات علم میں آئی ہے کہ پنجاب کے سابق وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ خان لاہور ہائی کورٹ کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں ایک رکنی انکوائری ٹریبیونل کی تحریر کردہ رپورٹ پر ایک سنگین شکایت کے ساتھ سپریم جیوڈیشل کونسل جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی پارٹی مسلم لیگ ن سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش بھی کرسکتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ رانا ثناء اللہ نے جسٹس علی باقر نجفی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے مقدمے کا ریفرینس بھیجنے کے لیے انہوں نے آرٹیکل 209(5) کو بنیاد بنایا ہے۔ ان کی شکایت میں تین اہم نکات کو بنیاد بنایا گیا ہے:

اوّل.... ٹریبیونل نے مکمل طور پر ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ پر مکمل طور پر انحصار کیا ہے۔ کچھ اس ایجنسی کی جانب سے پیش کیے گئے کچھ نکات تو ٹریبیونل کی رپورٹ میں لفظ بہ لفظ نقل کیے گئے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ دوسری جانب وہ حکام جنہیں اس واقعہ کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا، یا ان کے بیانات ٹریبیونل کے سامنے ریکارڈ کیے گئے، ان سے پوچھ گچھ یا جرح نہیں کی گئی۔

دوم.... لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی 4 اگست سے 31 اگست تک رخصت پر تھے، اور ایک افسرِ قانون کا کہنا ہے کہ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ انکوائری رپورٹ پیش نہیں کریں گے، جب تک کہ بطور انکوائری ٹریبیونل کے چیئرمین کے ان کی تقرری کے خلاف ایک رٹ پٹیشن لاہور ہائی کورٹ کے سامنے زیرِ التواء ہے۔

لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ جج نو اگست کو اپنے دفتر پہنچے اور سیکریٹری داخلہ کو رات ساڑھے آٹھ بجے طلب کرلیا۔

مذکورہ افسر کا یہ کہنا ہے کہ اس کو ٹریبیونل کی رپورٹ حاصل کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا، جو کہ پہلے سے تحریر کرلی گئی تھی۔

جب مذکورہ افسر جسٹس باقر نجفی کے دفتر میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ میڈیا کے نمائندے وہاں ’رپورٹ حوالے کیے جانے کی تقریب کا مشاہدہ‘ کرنے کے لیے باہر منتظر تھے۔

اس سے محض چند گھنٹے پہلے ہی پاکستان عوامی تحریک نے سترہ جون کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں گیارہ افراد کی ہلاکتوں کی یاد منانے کے لیے دس اگست کو یومِ شہداء قرار دیا تھا، اسی واقعے کی یہ ٹریبیونل تحقیقات کررہا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ اس طرح کی رپورٹ حوالے کیے جانے کا یہ واقعہ ملک کی تاریخ میں بے مثال تھا، جس کی میڈیا کوریج کررہا تھا۔

سوم.... ٹریبیونل رپورٹ کی صرف نقل کو سیکریٹری داخلہ کے حوالے کیے جانے کو خفیہ رکھا جارہا تھا۔

حکومت اس رپورٹ کو بے نتیجہ رکھنا چاہتی تھی، اور سپریم کورٹ کے سابق جج خلیل الرحمان خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی کے ذریعے اس کا تجزیہ کروانا چاہتی تھی، قانون اور داخلہ کے سیکریٹری اور ایڈوکیٹ جنرل اس کمیٹی میں بطور رکن شامل ہوں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ اس رپورٹ کی نقل یہاں تک کہ وزیرِ اعلٰی یا کسی دوسرے حکام کو دینے کی اجازت نہیں ہے۔

رپورٹ کی دوسری کاپی کو ٹریبیونل کے دفتری ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا تھا۔

لیکن یہ رپورٹ پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے شرکاء کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد میڈیا کو لیک ہوگئی تھی، اور سوال کیا جارہا تھا کہ اگر یہ رپورٹ سیکریٹری داخلہ نے لیک نہیں کی تو پھر یہ دستاویز کس نے میڈیا کو دی؟

جب سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے کے ارادے کے بارے میں راناثناء اللہ سے بالواسطہ طور پر رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’آئین ہر شخص کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اعلٰی عدالت کے ایک جج کے خلاف اپنی شکایات سپریم جیوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کرے۔‘‘

آئین کے آرٹیکل 209(5) میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی ذرائع سے سپریم جوڈیشل کونسل یا صدر کو اس بات کی اطلاع ملے کہ سپریم کورٹ یا ایک ہائی کورٹ کے جج جسمانی یا ذہنی کم مائیگی کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں کی مناسب طریقے سے ادائیگی کے قابل نہیں رہے یا بداعمالی کے مرتکب پائے گئے ہیں تو صدر کونسل کو ہدایت دے گا یا کونسل اس معاملے کی انکوائری کے لیے ازخود اقدام کرسکتی ہے۔

رانا ثناءا للہ کا اصرار ہے کہ ان کی شکایت ’’کسی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات‘‘ کے زُمرے میں آتی ہے۔

آئین کے تحت سپریم جیوڈیشل کونسل چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دو سب سے زیادہ سینئر ججوں اور دو ہائی کورٹس کے دو سینئر چیف جسٹس پر مشتمل ہوتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں