پشاور: پشاور ہائی کورٹ کو پولیس کی جانب سے منگل کے روز بتایا گیا کہ ایک ہندوستانی شہری جو ضلع کوہاٹ میں 2012ء کے دوران لاپتہ ہوگیا تھا، اس کی پُراسرار گمشدگی سے پہلے اس کو انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکاروں نے ایک پولیس اسٹیشن سے اُٹھایا تھا۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران کوہاٹ پولیس کے تفتیشی افسر سجاد خان نے چیف جسٹس مظہر خان اور جسٹس اکرام اللہ خان کو بتایا کہ پولیس کا موٹرسائیکل سواروں کے دستے نے 28 برس کے نہال حامد انصاری کو شہر سے گرفتار کیا تھا، اور انہیں کوہاٹ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) پولیس اسٹیشن میں منتقل کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ گرفتاری انٹیلی جنس بیورو کے انسپکٹر نعیم خان کی فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر عمل میں آئی تھی۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ اس وقت کے ایس ایچ او فضل اللہ کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکار نے پولیس کی تفتیش کے بعد ہندوستانی شہری کو اصرار کرکے اپنے ساتھ لے گیا، اور اس کے بعد سے اس کے ٹھکانے کا کچھ علم نہیں ہوسکا۔

عدالت نے اس ایس ایچ کو ہدایت جاری کیں جو اس وقت ہنگو ضلع میں خدمات انجام دے رہا ہے، کہ وہ 29 اکتوبر کو متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ پیش ہو۔اس کے بعد سماعت ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ ہندوستانی شہری کی والدہ فوزیہ انصاری کی جانب سے یہ درخواست دائر کی گئی تھی۔

کرک میں ایک پولیس اسٹیشن میں اس لاپتہ شخص کی گمشدگی کی ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ تاہم بعد میں ایک اور ایف آئی آر کے ڈی اے پولیس اسٹیشن میں بھی درج کی گئی۔

جب عدالتی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت منگل کے روز شروع کی، درخواست گزار کے وکیل شکیل آصف نے لاپتہ ہندوستانی شہری کے معاملے پر ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم کی رپورٹ پیش کی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ مشترکہ تفتیشی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق نہال حامد انصاری چودہ نومبر 2012ء کو کوہاٹ گئے تھے، اور ایک مقامی ہوٹل میں انہوں نے ایک کمرہ بک کروایا تھا۔ جہاں سے بعد میں ایک جعلی شناختی کارڈ برآمد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہوٹل کے مالک کا دعویٰ ہے کہ یہ شخص بعد میں باہر گیا اور دوبارہ واپس نہیں آیا۔

شکیل آصف نے بتایا ’’ہوٹل کے مالک مصر تھا کہ کے ڈی اے پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او ان کے پاس اس روز آدھی رات کو آئے اور انہیں اس شخص کے کمرے کی چابی دیتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ ایک ہندوستانی شہری تھا، اور اس کا اصل نام نہال حامد انصاری تھا۔‘‘

وکیل نے کہا کہ ان کی مؤکلہ یہ جاننا چاہتی ہیں کہ وہ کون تھا جس نے ان کے بیٹے کو افغانستان سے پاکستان آنے پر مجبور کیا، افغانستان میں وہ ملازمت تلاش کرنے گیا تھا، اور وہ کون تھا جس نے اس کا پاکستان کا جعلی شناختی کارڈ بنوا کردیا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل چار کے تحت پاکستانی قوانین لاپتہ ہندوستانی شہری پر لاگو ہوتے ہیں، لہٰذا اس معاملے کو ملکی قانون کے تحت حل کیا جانا چاہیٔے۔

درخواست گزار نے کہا کہ ان کا 28 برس کا بیٹا ایم بی اے تھا، اور ممبئی کے مینجمنٹ کالج میں پڑھا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹا پہلے تو ملازمت کی تلاش میں نومبر 2012ء کے دوران افغانستان گیا تھا، اور پھر کوہاٹ کی ایک مصیبت زدہ لڑکی کی مدد کے لیے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا بیٹا نئی دہلی روٹری کلب کا صدر تھا، اور اس لڑکی کے ساتھ اس کا رابطہ سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹ فیس بک کے ذریعے ہوا تھا۔

درخواست گزار نے اصرار کیا کہ ان کے بیٹے کا کچھ پاکستانی دوستوں سے رابطہ تھا، جنہوں نے اس کو پاکستان میں بغیر ویزے کے داخل ہونے کا مشورہ دیا تھا۔

اس سے قبل درخواست گزار نے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق کے سیل مدد کے لیے ایک درخواست ارسال کی تھی، جسے مارچ 2014ء میں جبری گمشدگیوں کی انکوائری کے لیے قائم کمیشن کو بھیج دی تھی۔

دس اپریل 2014ء کو اس کمیشن نے خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کو ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم کے قیام کی ہدایت کی تھی، تاکہ اس لاپتہ شخص کے ٹھکانے کو تلاش کیا جاسکے۔

کمیشن کی ہدایات پر کرک میں سٹی پولیس اسٹیشن نے ہندوستانی شہری کی گمشدگی کی پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 365 کے تحت ایک ایف آئی آر درج کی تھی۔

اس کے علاوہ مشترکہ تفتیشی ٹیم نے ایس پی (انوسٹی گیشن) کرک، ڈی ایس پی اسپیشل برانچ، انٹیلی جنس ایجنسی کے نمائندوں اور درخواست گزار کی ایک نمائندہ زینت شہزادی سے بھی ملاقات کی۔

تبصرے (0) بند ہیں