سپریم کورٹ نے مختاراں مائی کیس کے ثبوت طلب کرلیے
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز بدنامِ زمانہ مختاراں مائی کیس کے تمام ثبوت طلب کرلیے۔
جمعرات کے روز مختاراں مائی کی جانب سے دائر کردہ نظرثانی کی درخواست پر جسٹس ثاقب ناصر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کل سماعت شروع کی۔
اس بینچ اس مقدمے کا مکمل ریکارڈ طلب کیا، لیکن اس کو مطلع کیا گیا کہ عدالتی ریکارڈز میں ثبوت موجود نہیں ہے، اس لیے کہ وہ ٹرائل کورٹ میں واپس بھیج دیے گئے تھے۔
سپریم کورٹ میں 19 مئی 2011ء کو دائر کی گئی ایک درخواست کے ذریعے مختاراں مائی نے 21 اپریل 2011ء کے فیصلے پر نظرثانی کی کوشش کی تھی، جس میں ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ملزمان کی سزا میں اضافے کی اپیل کو مسترد کردیا گیا تھا، بارہ سال قبل ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والوں کو بری کیے جانے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے دلیل دی کہ کم ازکم نو مثالوں کا ثبوت کے طور نوٹس نہیں لیا گیا، جو اس بات کا کافی ثبوت تھیں کہ 2011ء کے فیصلے کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا اور یہ فیصلہ انصاف کی فراہمی کے بنیادی اصولوں کے برعکس تھا۔
یاد رہے کہ اگست 2002ء کے دوران انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے چھ مردوں کو سزائے موت سنائی تھی، جن میں سے چار کو مختاراں مائی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے جبکہ دو کو جرگے میں شامل ہونے کی وجہ سے، جس کے حکم سے یہ زیادتی کی گئی تھی۔ باقی آٹھ مجرمان کو بری کردیا گیا، اور اس کے بعد وہ رہا ہوگئے۔
بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے اپنے تین مارچ 2005ء کے فیصلے کے ملزم عبدالخالق کی سزا کو تبدیل کردیا، بلکہ مجرم کو اکسانے والوں کو بھی بری کردیا، جنہوں نے 22 جون 2002ء کو گاؤں کی ایک پنچایت کے ذریعے مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا حکم دیا تھا۔
پنچایت کا یہ اجلاس جنوبی پنجاب کے میروالا گاؤں میں بااثر مستوئی قبیلے کی جانب سے بلایا گیا تھا۔
چار افراد جن پر مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے کا الزام تھا، ملتان کے قریب علی پور کے تھانے میں لاک اپ کے اندر موجود ہیں، یہ تصویر سولہ جولائی 2002ء کی ہے۔ —. فائل فوٹو رائٹرز |
اس واقعہ پر فی الفور ہی چاروں طرف سے تنقید شروع ہوگئی تھی اور اس وقت اس واقعہ کو بین الاقوامی توجہ بھی حاصل ہوگئی تھی۔
گاؤں کی اس پنچایت کا اجلاس مستوئی قبیلے کی جانب سے مختاراں مائی کے بھائی کو سزا دینے کے لیے طلب کیا گیا تھا، جس کی عمر اس وقت بارہ برس کی تھی۔
مختاراں کے بھائی پر ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، اور پنجایت نے تجویز دی تھی کہ وہ اس لڑکی سے شادی کردی جائے، جبکہ اس کی بڑی بہن مختاراں کی شادی مستوئی قبیلے کے ایک مرد سے کی جانی چاہیے۔
لیکن مستوئی قبیلے نے اس سودے کو مسترد کردیا اور اصرار کیا کہ زنا کا بدلہ زنا ہی ہونا چاہیے۔
اس کے بعد مختاراں مائی کو اپنے بھائی کے عمل پر معافی مانگنے کے لیے بلایا گیا۔
مختاراں کے بھائی کو پہلے ہی مستوئی کے مردوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، اور پھر مختاراں کو بھی مبینہ طور پر ایک قریبی جھونپڑی میں گھسیٹا گیا اور چار مردوں نے اس کو بھی اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا۔
لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے دو کی ایک پر اکثریت کے ساتھ مختاراں مائی کی اپیل مسترد کردی گئی۔
تاہم سپریم کورٹ نے چودہ مشتبہ ملزموں میں سے بنیادی ملزم عبدالخالق کی عمرقید کی سزا کو برقرار رکھا۔
اپنے تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے ان تمام ملزموں کو رہا کرنے کا حکم دیا، جنہیں اس کے حکم پر 28 جولائی 2005ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اپنی نظرثانی کی درخواست میں مختاراں مائی نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا یہ فیصلہ انصاف کی بہت بڑی ناکامی تھی۔