پاکستان میں ذہنی بیماریاں اور ہماری بے حسی

30 ستمبر 2014
آخر ذہنی بیماریوں کے شکار کتنے اور لوگوں کو اپنے گھرانوں کی بے حسی، اور معاشرے کی جانب سے ٹھکرائے جانے کو جھیلنا پڑے گا؟ — فوٹو سعد سرفراز
آخر ذہنی بیماریوں کے شکار کتنے اور لوگوں کو اپنے گھرانوں کی بے حسی، اور معاشرے کی جانب سے ٹھکرائے جانے کو جھیلنا پڑے گا؟ — فوٹو سعد سرفراز

پاکستان کی تقریباً 10 سے 16 فیصد آبادی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے، اور ان میں اکثریت خواتین کی ہے۔

لیکن پھر بھی ہم اس معاملے میں شرمناک حد تک بے حس ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق 18 کروڑ سے زائد آبادی کے لیے صرف 400 سائیکاٹرسٹ اور 5 ذہنی امراض کے ہسپتال موجود ہیں۔ اگر اس کا تناسب دیکھا جائے، تو 5 لاکھ لوگوں کے لیے صرف ایک سائیکاٹرسٹ موجود ہے۔

خصوصی بچوں کے اسکول میں ایک ذہنی مریض — فوٹو سعد سرفراز
خصوصی بچوں کے اسکول میں ایک ذہنی مریض — فوٹو سعد سرفراز

افسوس کی بات یہ ہے، کہ ان کو مطلوب توجہ نہیں مل پاتی۔ توجہ نا ملنے کی وجہ یہ ہے کہ کئی مریض خود علاج کروانا نہیں چاہتے، یا علاج بیچ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی بے حس خاندان خود ہی اپنے ان مریضوں کو ہمیشہ کے لیے ٹھکرا دیتے ہیں۔

مجھے اس مسئلے کے بارے میں آگہی پھیلانے میں بہت دلچسپی ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ آخر ذہنی بیماریوں کے شکار کتنے اور لوگوں کو اپنے گھرانوں کی بے حسی، اور معاشرے کی جانب سے ٹھکرائے جانے کو جھیلنا پڑے گا؟ آخر کیوں لوگ اپنے گھر میں موجود اس طرح کے خصوصی افراد کو شرم و رسوائی کا باعث سمجھتے ہیں؟

پاکستان میں ذہنی امراض کے علاج میں سب سے بڑی مشکل شرم و رسوائی کا ڈر ہے۔ پاکستان میں اس کا مطلب یہ ہے، کہ ایک ایسے شخص کے لیے سماج میں قبولیت حاصل کرنا انتہائی مشکل، یا ناممکن ہوجاتا ہے، جس کے نتائج خطرناک اور تباہ کن بھی ہوسکتے ہیں۔

ہمارے اپنے معاشرے میں سماج کی جانب سے قبول کیا جانا ایک شخص کے زندہ رہنے اور "جینے" کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے، اور اس میں شادی کرنا، کام کرنا، دوست بنانا، معاشرے میں گھلنا ملنا، اور روز مرہ کے کام شامل ہیں۔

بدقسمتی سے بہت سارے لوگ ذہنی امراض کے شکار کسی شخص کے ساتھ دوستی یا گھلنا ملنا پسند نہیں کریں گے۔ شرم و رسوائی کا ڈر کیا ہے، ہم اس کی بناء پر کس طرح کچھ معاملات سے نظریں چراتے ہیں، اس کو جاننے کے لیے ہمیں اس شرم و رسوائی اور اس سے متعلق کچھ رویوں کو سمجھنا پڑے گا۔

لاہور میں بی بی پاکدامن کے مزار پر کئی ذہنی مریض افراد موجود ہیں — فوٹو سعد سرفراز
لاہور میں بی بی پاکدامن کے مزار پر کئی ذہنی مریض افراد موجود ہیں — فوٹو سعد سرفراز

رویے: ہم دنیا کے بارے میں صرف سامنے موجود حقائق کو دیکھ کر فیصلے کر ڈالتے ہیں، اور پھر اس میں اپنے جذباتی ردعمل، اور اپنے خیالات بھی شامل کر دیتے ہیں۔

لوگوں پر لیبل لگانا: ہم کسی خاص گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بارے میں معاشرے میں پہلے سے رائج خیالات کو اپنا لیتے ہیں، اور یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ ہر کسی کو ایک ہی برش سے پینٹ کرنا درست نہیں۔ اس کو Stereotyping بھی کہتے ہیں۔

بدگمانی: معاشرے میں پہلے سے رائج بے بنیاد آراء کو ہم بڑی آسانی سے قبول کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک خاص گروہ، اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد کے بارے میں ہمارا رویہ منفی ہوجاتا ہے، اور ہم ان کے بارے میں کچھ اچھا سوچنے کو کبھی تیار نہیں ہوتے۔

تفریق: لوگ اپنے بدگمانی پر مبنی خیالات کی بناء پر ذہنی مریضوں کے ساتھ اس طرح پیش آتے ہیں، کہ ان کے لیے ان کی زندگی کی یہ تلخ حقیقتیں اور بھی گہری ہوجاتی ہیں۔

لاہور میں داتا دربار کے باہر ایک بے گھر ذہنی مریضہ — فوٹو سعد سرفراز
لاہور میں داتا دربار کے باہر ایک بے گھر ذہنی مریضہ — فوٹو سعد سرفراز

پاکستان بھر میں ذہنی امراض کے شکار لوگوں کے ساتھ کس طرح تفریق کی جاتی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ڈپریشن، شیزوفرینیا، Post Traumatic Stress Disorder، اور اینگزائیٹی کو صرف "Diagnosis" یعنی مرض کی تشخیص میں غلطی قرار دے کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

دوسرے کیسز میں ان مریضوں کو کمزور قرار دے کر ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ مرض سے نمٹنے کے لیے اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔

مذہب اور ایمان بلاشبہ حیرت انگیز اثر رکھتے ہیں، لیکن ہمیں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ بیماریاں دماغ کے اندر بائیو کیمیکل وجوہات کی بناء پر ہوتی ہیں، اور اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر علاج ممکن نہیں ہوسکتا۔

ذہنی امراض کے علاج کی سہولیات تک رسائی نا ہونے کی صورت میں لوگ جھاڑ پھونک والے بابوں، حکیموں، اور ہومیوپیتھک کا رخ کرتے ہیں، جہاں سے ان کے اس بائیو کیمیکل مسئلے کا کوئی حل نہیں ہوپاتا۔

یہ بات اس لیے بھی تکلیف دہ ہے، کیونکہ تحقیق کے مطابق اگر بیماری کی جلد تشخیص کے بعد فوراً علاج شروع ہوجائے، تو مریض کی حالت مزید بگڑنے سے بچائی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ بڑھتا ہوا عدم تحفظ، غربت، سیاسی بے یقینی، جینیاتی فیکٹر، اور بےروزگاری وغیرہ جیسے مسائل سے پاکستان میں ذہنی صحت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

پاکستانی خواتین کے لیے تو یہ خطرہ اور بھی زیادہ ہے، کیونکہ وہ گھریلو تشدد، سسرالیوں کے زہریلے رویوں، اور جنسی تفریق کا بار بار شکار ہوتی ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں میرے نزدیک دماغی امراض صرف بڑھیں گے ہی۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری کو پورا کرے، خواتین کو بااختیار کرے، اور ذہنی امراض کے بارے میں آگہی بڑھائے۔

قصور میں بابا بلھے شاہ کے مزار پر موجود ایک بے گھر ذہنی مریض  — فوٹو سعد سرفراز
قصور میں بابا بلھے شاہ کے مزار پر موجود ایک بے گھر ذہنی مریض — فوٹو سعد سرفراز

انفرادی سطح پر اس بات کی ضرورت ہے، کہ ان حساس معاملوں میں بدنامی و رسوائی کی فکر کرنے کے بجائے علاج کی جانب جایا جائے۔ ہم کم سے کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ ذہنی طور پر بیمار افراد کو سپورٹ کریں۔

ایک ایسا ملک جہاں پہلے ہی اتنے مسائل و بیماریاں موجود ہیں، وہاں لوگوں کا بڑھتی ہوئی تعداد میں ذہنی امراض کا شکار ہونا اب اور برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں