سمندرپار پاکستانی ورکرز اور ان کی مشکلات
ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان میں پیدا ہونے والے افراد کی ایک بڑی اکثریت اپنے وطن میں کام نہیں کرتی اور ملازمتوں کے تعاقب میں وہ دیگر مقامات کا رخ کرتے ہیں اور وہاں سے رقوم بھیجتے ہیں جس سے ان کے وطن کی معیشت بھی فعال رہتی ہے۔
ترقی پذیر دنیا میں یہ شرح کتنی بڑی ہے اس کا انکشاف عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں ہوا ہے، جس کے تخمینے کے مطابق 2014 میں ترقی پذیر ممالک کو بھیجے جانے والی ترسیلات زر میں پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے، یہ ترسیلات زر 2014 میں 435 ارب ڈالرز اور 2015 میں 454 ارب ڈالرز تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔
ممالک جیسے ہندوستان افرادی قوت کو برآمد کرنے والا اہم ملک ہے جس کے ایک کروڑ چالیس لاکھ کے لگ بھگ شہری بیرون ملک کام کررہے ہیں اور ہر سال 71 ارب ڈالرز کے قریب وطن واپس بھیج رہے ہیں، جہاں تک چھوٹے ممالک کی بات ہے جیسے نیپال، تاجکستان اور دیگر، ترسیلات زر ان نے مجموعی جی ڈی پی کا بالترتیب 42 اور 29 فیصد پر مشتمل ہے۔
پاکستان میں گزشتہ برس ترسیلات زر مجموعی طور پر سترہ ارب ڈالرز رہی، جو اضافے کی نشاندہی کرتی ہے، یہ ترسیلات زر ملک کے بہت اہم ہے اور معیشت کے لیے غیرملکی زرمبادلہ کا سب سے اہم ذریعہ ہے، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اس سے ملک کے ادائیگیوں کے توازن میں استحکام آیا ہے اور یہ اس کی درآمدات کے نصف کی نمائندگی کرتی ہے۔
پاکستان کی یہ افرادی قوت برآمد بیرون ملک جاکر رقوم بھیج کر ناصرف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کررہی ہے بلکہ وہ ملک میں کسی قدرتی آفت کے بعد امداد کا بڑا حصہ بھیجنے کی ذمہ داری بھی پوری کرتی ہے۔
اگرچہ رواں برس کے سیلاب کا ڈیٹا دستیاب نہیں تاہم اگست 2010 کے سیلاب کے بعد اس سال میں ترسیلات زر میں انیس فیصد کا اضافہ دیکھا گیا، توقع کی جارہی ہے رواں برس کے سیلاب کے نتیجے میں ترسیلات میں 16.6 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔
یہ ڈیٹا اس امر کا اظہار بھی کرتا ہے کہ پاکستان کے پالیسی سازوں کے بارے میں دوبارہ سوچے جانے کی ضرورت ہے، رپورٹ کا ایک نمایاں نکتہ یہ ہے کہ ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کے پرکشش ماڈل کو اپنایا نہیں جاتا، مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے بگڑتے مسائل کو دیکھتے ہوئے اس شعبے کی ترقی کافی ناممکن سی لگتی ہے۔
دیگر ممالک جنھیں تنازعات اور عدم استحکام کا سامنا ہے پاکستان کے لیے اپنی معیشت کو توانائی سے بھرپور کرنے کے لیے ان مثبت نکات کو اجاگر کرنا ہوگا جو سامنے آچکے ہیں، افرادی قوت کی برآمد کا مطلب غربت میں تخفیف ہے، بیرون ملک میں رہ کر بھی پاکستانی ورکرز اپنے آبائی وطن سے مضبوط تعلق برقرار رکھتے ہیں، اعدادوشمار ثابگت کرتے ہیں کہ ملک میں معیشت اور سرمایہ کاری کی ترقی کے لیے سب سے قابل اعتبار ذریعہ ہے۔
عالمی سطح پر اعدادوشمار بھی اس بات پر دوبارہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ترقیاتی امداد جو ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان میں غربت میں کمی کے لیے دی جاتی ہے، درحقیقت ترقیاتی کی بجائے مخصوص منصوبوں کے لیے ہوتی ہے جو مقامی ضروریات اور حالات سے مطابقت نہیں رکھتے، غیرملکی ورکرز کی ترسیلات سے ایسے مستحکم ماڈل کو فروغ دیا جاسکتا ہے جس میں برادری کی سطح پر شمولیت نمایاں ہو۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے تعمیر کردہ اسکول اور ہسپتال وغیرہ ملک میں بیوروکریسی اور سیاسی طور پر حاصل کردہ اربوں کی ترقیاتی امداد کے مقابلے میں حقیقی تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے زیادہ کامیاب ثابت ہوتے ہیں، جبکہ وہ امداد اسلام آباد اور مڈل مین کے چھوٹے گروپ کے درمیان پھنس کر رہ جاتی ہے۔
یہ تمام حقائق کتابی نہیں تاہم افرادی قوت کی برآمد کو فروغ دینے والی پالیسیوں کی تشکیل کی بجائے پاکستان کی سیاسی اور سماجی پالیسیوں میں اکثر ان غیرملکی ورکرز کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ امیر سیاستدانوں کے غیرملکی پاسپورٹس تک رسائی کا مسئلہ اکثر غریب ورکرز کو درپیش مسائل سے ٹکرا جاتا ہے جو کہ وطن میں روزگار نہ ملنے پر باہر جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اس ٹکراﺅ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وطن میں ناکام سیاستدان پرجوش طریقے سے یہ بات پھیلانے لگتے ہیں کہ بیرون ملک کام کرنا کسی فرد میں حب الوطنی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے،اس کے مقابلے میں ہندوستان کی حکمت عملی مختلف نظر آتی ہے یہاں تک کہ ان کا وزیراعظم جب بیرون ملک دورے پر جاتا ہے تو ہزاروں تارکین وطن سے بات چیت کو اپنی ترجیح بناتا ہے، تاہم ایسی محبت پاکستانی تارکین وطن ورکرز کو دستیاب نہیں۔
تعصب ایک اور پاکستانی غیرملکی ورکرز پر تھوپا ہوا بوجھ ہے، زیادہ تعصب ور تشدد اس وقت سامنے آتا ہے جب دیگر ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں میں انہیں ریاستی قونصلر کی خدمات میسر نہیں آتیں، کچھ برس قبل جب متعدد ممالک جن میں یو اے ای بھی شامل ہے، نے مشین ریڈایبل پاسپورٹس کی شرط عاءکی تو پاکستانی قونصل خانوں میں ایسی مشینیں نہیں رکھی گئیں، مختصر تعطیلات کے دوران اس کے سبب تارکین وطن کو اپنے گھر جانے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا یا گھر آکر پھنس گئے کیونکہ یہاں مشین ریڈایبل پاسپورٹ مقامی بیوروکریسی کے ذریعے ہی بنائے جارہے تھے۔
اگرچہ اب یہ پاسپورٹس بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں میں ایشو ہونے لگے ہیں مگر ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستانی تارکین وطن اس بات پر حکومت کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ کچھ سفارتخانوں میں پاسپورٹس کی تیاری کے وقت کو بہتر بنایا جائے تاکہ پاکستانیوں کو دستاویزات کے حصول کے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے، اگر ان ممالک کی حکومتیں آنے والے پاکستانی ورکرز کے ساتھ امتیاز اور خوش اخلاقی کا اپنے طور پر مظاہرہ کریں تو بھی حالات میں بمشکل ہی بہتری آسکے گی۔
پاسپورٹ پاکستانیوں کو نظرانداز کیے جانے کی روایات کا سب سے ناقابل برداشت رویہ ہے جس کا انہیں بیرون ملک کسی مشکل صورتحال میں اپنے سفارتخانوں کا رخ کرنے پر سامنا کرنا پڑتا ہے، پاکستان میں ان ورکرز کو نظرانداز کرنے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہ ے کہ کسی بھی ملک سے دوطرفہ تعلقات پر مذاکرات کے دوران یہ تارکین وطبن ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہوتے۔
ترقیاتی امداد کے برعکس ترسیلات زر حکومت کی جیب میں نہیں جاتی اور انہیں اپنے رشتے داروں کے کاروبار کو بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ ماضی کی اور آج کی انتظامیہ کی توجہ ترقیاتی امداد کے پیکجز کے حصول کی جانب زیادہ ہوتی ہے جو ان کی جیبوں میں جاتی ہے جبکہ وہ باہر جانے والے پاکستانیوں ورکرز کے لیے حالات بہتر بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کیونکہ وہ اپنی رقومات خاندانوں اور برادریوں کو ارسال کرتے ہیں۔
افرادی قوت کی برآمد صرف پاکستان کا خاصہ نہیں، ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا ان ورکرز کی نقل مکانی کے حب ہیں، ملازمت کے لیے وطن سے دوری اختیار کرنا جذباتی طور پر کوئی بہتر مقصد نہیں بلکہ اسے خوش آمدید نہ کہا جائے تو یہ کوئی خوشگوار حقیقت نہیں، اس پر توجہ دینے سے ملک میں استحکام اور ترقی دونوں کو فروغ ملے گا، یہ وقت ہے کہ ثقافت، معاشرہ اور پالیسی ذرائع اس بات کی عکاسی کریں کہ لوگ جہاں سے بھی کمائیں مگر اس کا بڑا حصہ پاکستان کے اوپر اور اندر ہی خرچ کریں۔
لکھاری قانون کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔