واشنگٹن: پاکستانی سفارتخانے کے سینئر حکام نے پاکستانی نژاد امریکیوں کے ایک اجتماع کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی میں مصروف مسلح افواج کا اگلا ہدف وادیٔ شوال ہے۔

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر واشنگٹن میں پہلی مرتبہ پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی کے لیے ایک کنونشن کی پاکستانی سفارتخانے نے میزبانی کی اور انہیں پاکستان کو درپیش مختلف مسائل سے آگاہ کیا۔

حکام نے اس اجتماع کو بتایا کہ حکومت دیگر تمام کوششوں کی ناکامی کے بعد فوجی آپریشن ضربِ عضب شروع کرنے پر مجبور ہوئی تھی، پھر بھی حکومت نے آپریشن شروع کرنے سے قبل ملک کی تمام سیاسی قوتوں سے مشاورت کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند کبھی بھی مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھے، یہاں تک کہ انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی ملک بھی میں فوجی اور سویلین دونوں اہداف پر حملے جاری رکھے ہوئے تھے۔

ان میں سے ایک عہدے دار نے بتایا ’’ہم اس کے منفی نتائج کے بارے میں فکرمند تھے، لیکن ملک بھر سے یہ فیصلہ سامنے آیا کہ ریاست کی عملداری کو بحال کیا جائے۔ اور یوں یہ آپریشن شروع کیا گیا۔‘‘

ایک اور عہدے دار نے نشاندہی کی کہ منفی نتائج کا خدشہ ایسا اہم نہ تھا، اس لیے کہ ہماری مربوط کوششوں نے انہیں جوابی کارروائی کا موقع ہی نہیں دیا۔

مذکورہ عہدے دار نے حاضرین کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ پولیس، رینجرز، آئی بی، آئی ایس آئی اور مسلح افواج سمیت تمام سیکورٹی ایجنسیاں عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں حصہ لے رہی ہیں۔

سفارتخانے کے ایک اور اہلکار نے کہا ’’گوکہ ہماری اہم کوششوں کا مرکز شمالی وزیرستان ہے، اس کے علاوہ سیکورٹی ایجنسیاں کراچی سمیت ملک بھر میں عسکریت پسندوں کا مقابلہ کررہی ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا ’’ہم نے ان کی پناہ گاہوں اور ان کے ہمدردوں بے اثر کرکے ان کی جوابی کارروائی کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے۔‘‘

پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے وضاحت کی کہ شمالی وزیرستان میں چھپے ہوئے عسکریت پسند چار سمتوں میں فرار ہوگئے، ایک تو اس علاقے میں ہی روپوش ہوگئے، جہاں آپریشن کیا جارہا ہے، دوسرے دیگر قبائلی علاقوں میں، تیسرے ملک کےبڑے شہروں میں اور چوتھی سمت افغانستان ہے، جہاں یہ لوگ فرار ہوئے۔

ان میں سے ایک عہدے دار نے بتایا ’’مسلح افواج نے عسکریت پسندوں کو اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے، لیکن کچھ اب بھی وادیٔ شوال میں روپوش ہیں، لہٰذا ہمارا ارادہ ہے کہ اس سال دسمبر سے پہلے اس وادی میں داخل ہوں اور ان کی پناہ گاہوں کو تباہ کردیں۔‘‘

انہوں نے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ مسلح افواج کو حقانی نیٹ ورک جیسے بعض گروپس کو نشانہ نہ بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ عسکریت پسندوں کے خلاف ایک جنگ ہے، جس میں تمام گروپس بشمول حقانی نیٹ ورک، پنجابی طالبان اور دیگر کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جنہوں نے ہتھیار ڈال دیے انہیں گرفتار کرلیا گیا، اور جنہوں نے لڑائی جاری رکھی وہ مارے گئے۔‘‘

تاہم مذکورہ عہدے دار نے نشاندہی کی کہ سیاسی اتفاقِ رائے کے حصول میں کچھ مہینہ لگ گیا، جس کے دوران کچھ عسکریت پسند محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے۔

انہوں نے کہا ’’لیکن ہم اس طرف بھی جارہے ہیں اور افغانستان سے درخواست کی ہے کہ ان لوگوں کو پکڑا جائے جو وہاں روپوش ہوگئے ہیں۔‘‘

پاکستانی سفارتکار نے بتایا کہ حکومت نے آپریشن شروع ہونے سے پہلے امریکا سے دو درجن بکتر بند گاڑیاں حاصل کی تھیں، اور مزید دو سو گاڑیوں کے حصول کی کوشش کررہی ہے۔

امریکامیں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ حکومت کا اس سال کے بعد اسلام آباد میں ایک ڈونرز کانفرنس کے انعقاد کا ارادہ ہے، تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی ضروریات کیا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے فوری اور سب سے زیادہ ضروری کام بے گھر افراد کی دوبارہ آبادکاری ہے۔ آپریشن کے فوجی اخراجات سے نمٹنے کے لیے بھی ملک کو کچھ امداد کی ضرورت ہے۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ ملک کو اس مقصد کے لیے کم از کم 2.5 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے اور ہم امید کررہے ہیں کہ امریکا سمیت دوست ممالک اس میں حصہ لیں گے۔

سفارتخانے کے ایک دوسرے عہدے دار نے بتایا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی کہ یہ عسکریت پسند بے گھر افراد کے ساتھ قبائلی علاقوں میں واپس نہ آجائیں۔

انہوں نے کہا ’’سویلین اور فوجی دونوں انٹیلی جنس ادارے اس کام میں مصروف ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہم انہیں واپس لوٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یاد رکھیں کہ ہمارے ہزاروں فوجی ان عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی میں ہلاک ہوئے ہیں، چنانچہ ہمیں ان عسکریت پسندوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں