جازان: سعودی عرب کی مذہبی پولیس امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے جازان شاخ کے سربراہ کو ایک لڑکی کو جنسی تعلقات کے لیے بلیک میل کرنے پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔

اس لڑکی کو ابتداء میں غیرقانونی خلوا ، (یعنی کسی خاتون کا ایک ایسے مرد سے ملاقات کرنا جو اس کا قریبی رشتہ دار محرم نہ ہو) کے تحت گرفتار کرکے اس کا مقدمہ مذہبی پولیس (حیا) کی مقامی شاخ کے سربراہ کے حوالے کیا گیا تھا۔

سعودی گزٹ کی رپورٹ کے مطابق حیا کے مقامی سربراہ نے اس لڑکی کو مبینہ طور پر تین مہینے تک بلیک میل کیا، اور اس کو دھمکیاں دیں کہ اگر اس نے اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم نہیں کیا تو وہ اس کے خلاف مقدمہ کی کارروائی کو آگے بڑھائے گا۔

وہ لڑکی اس ڈر سے رضامند ہوگئی کہ اگر اس پر مقدمہ چلایا گیا تو اس کی بدنامی ہوگی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بعد میں اس لڑکی کو ایک نوجوان نے رشتہ بھیجا تو اس نے حیا کے سربراہ سے التجاء کی کہ وہ اس کے ساتھ تعلق ختم کردے۔

لیکن اس نے انکار کردیا اور بلیک میلنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔

پھر اس لڑکی نے صوبہ جازان میں حیا کے ہیڈآفس اور مقامی پولیس کو نے اس بلیک میلنگ کی رپورٹ کردی۔ حیا کی اس شاخ کا سربراہ اس لڑکی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور اس کو گرفتار کرلیا گیا۔

یہ کیس انوسٹی گیشن اور پبلک پراسیکیوشن کے بیورو کو مزید کارروائی کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

اسی دوران مدینہ میں قائم سماجی امور کی وزارت کے آفس نے انکشاف کیا ہے کہ 75 فیصد جنسی زیادتی کے کیسز میں ڈرائیورز،گھریلو ملازمین اور عزیزواقارب متاثرین میں شامل ہوتے ہیں۔

روزنامہ مکہ سے بات کرتے ہوئے مدینہ میں اس وزارت کے سربراہ ڈاکٹر نائف الحربی نے کہا کہ رشتہ داروں کے ساتھ جنسی استحصال کو گھریلو تشدد کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے۔

اس وزارت کی تحفظ کے لیے قائم ایک کمیٹی گھریلو تشدد کے معاملات کو نمٹاتی ہے اور ان کی اچھی طرح چھان بین کرتی ہے۔

زنا کے مقدمات میں متاثر کو ایک حفاظتی گھر میں لے جایا جاتا ہے، جہاں ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں مستحکم ماحول میں رکھا جاتا ہے، جبکہ مجرمین کو منشیات کے استعمال یا دماغی بیماری میں مبتلا ہونے کی صورت میں ان کا علاج کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر نائف الحربی کا کہنا ہے کہ مدینہ میں ایسے کیسز بہت کم رونما ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحفظ والدین کی بھی ذمہ داری ہے، اس لیے انہیں اپنے بچوں کو قریبی دکانوں پر اکیلے نہیں بھیجنا چاہیے۔

سعودی گزٹ کی رپورٹ میں اُمّ خالد کا معاملہ بھی پیش کیا گیا ہے، جو ایک مطلقہ اور چھ بچوں کی ماں ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بڑی لڑکی سے یہ سن کر حیران رہ گئیں کہ ان کے باپ نے اپنی بیٹیوں کے جنسی استحصال کی کوشش کی تھی۔

ان کی بیٹیاں خوفزدہ ہوگئی تھیں اور اپنے والد سے بچنے کے لیے سارا دن اپنے کمرے میں چھپی رہتی ہیں۔

سعودی گزٹ لکھتا ہے کہ باپ اور بیٹیوں کے درمیان اور چچا اور بھتیجیوں کے درمیان جنسی استحصال کے اس طرح کے بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں۔

مدینہ پولیس کے ترجمان کرنل فہد الغنم کا کہنا ہے کہ خاندان میں ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کو عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا اور ان کا محکمہ اپنی صوابدید کے تحت انہیں رازداریمیں رکھتا ہے، تاکہ اس خاندان اور متاثرہ کو کوئی گزند نہ پہنچے۔

اخلاقی اقدار کے لیے پرنس نائف بن عبدالعزیز چیئر کے سربراہ ڈاکٹر غازی المطائری کہتے ہیں کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کا معاشرے میں اس سے پہلے رجحان نہیں تھا۔ ان کے خیال میں جب سے اسمارٹ فون اور دیگر ذرائع کے ذریعے غیر سنسر شدہ مواد کی دستیابی آسان ہوئی ہے، اس کے بعد سے یہ رجحان بڑھتا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں