اگر دنیا میں امیر نہ ہوتے؟

07 نومبر 2014
جہاں ایک طرف تھر میں سینکڑوں بچے بھوک سے مر رہے ہیں، وہیں وطنِ عزیز میں کئی ٹن کھانا ضائع کردیا جاتا ہے — خاکہ logoblink.com
جہاں ایک طرف تھر میں سینکڑوں بچے بھوک سے مر رہے ہیں، وہیں وطنِ عزیز میں کئی ٹن کھانا ضائع کردیا جاتا ہے — خاکہ logoblink.com

اگر دنیا میں امیر نہ ہوتے تو پھر غریب بھی نہ ہوتے۔ امیری اور غربت کی وجہ دولت کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ دنیا بھر کے ممالک تو امیر اور غریب ملکوں میں تقسیم ہیں ہی، ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر ممالک اور پسماندہ ممالک، لیکن ان ملکوں کے اندر بھی امیر اور غریب کی تقسیم واضح طور پر نظر آتی ہے۔

آکسفام انٹرنیشنل (Oxfam International) کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ آکسفام انٹرنیشنل ایک فلاحی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں عدم مساوات ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ آکسفام انٹرنیشنل کے مطابق گھانا سے لے کر جرمنی تک اور اٹلی سے لے کر انڈونیشیا تک امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔

تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں ہر دس انسانوں میں سے سات ان ممالک میں آباد ہیں جہاں گذشتہ تیس برسوں کے دوران امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق اپنی بدترین سطح کو پہنچ چکا ہے۔ آکسفام کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے 85 افراد اتنی دولت کے مالک ہیں جو مجموعی طور پر دنیا کی نصف غریب ترین آبادی کے پاس ہے، یعنی دنیا کے غریب ترین 3.5 ارب افراد کے پاس۔

دنیا نے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں فنانشل سیکٹر کا بدترین بحران دیکھا۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے بینک اور اسٹاک ایکسچینج تاش کے پتوں کی طرح گرتے ہوئے دیکھے گئے۔ اور جب اس کسادبازاری پر قابو پا لیا گیا تو دیکھنے میں یہ آیا کہ ارب پتیوں کی تعداد میں دوگنے سے زیادہ کا اضافہ ہوگیا۔ آکسفام کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ارب پتیوں کی تعداد 2009ء سے 2014ء کے درمیان دوگنی سے زیادہ ہوچکی ہے۔ فوربس (Forbes Magazine) کی امیروں کی فہرست کے مطابق 2009ء میں ارب پتیوں کی تعداد 793 تھی جو اب 1645 کی حد کو پہنچ چکی ہے۔

اگر دنیا کا امیرترین انسان میکسیکو کا کارلوس سلم اپنی دولت میں سے روزانہ دس لاکھ ڈالر بھی خرچ کرے تو اس کی ساری دولت کے ختم ہونے میں 220 سال لگ جائیں گے اور اگر وہ اپنی ساری دولت کو ایک عام سیونگ اکاؤنٹ میں رکھے تو اس کی دولت پر اسے جو منافع ملے گا اس کی رقم روزانہ 43 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہوگی۔ ایک اور اندازے کے مطابق اگر دنیا کے تین دولتمند ترین افراد روزانہ دس لاکھ ڈالر بھی صرف کریں تو ان کی دولت 200 سال تک بھی ختم نہ ہوگی، یعنی ان کی نسل درنسل اس دولت سے مستفید ہوتی رہے گی۔

دولت کی غیر مساوی تقسیم

عدم مساوات ہمارے عہد کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ ایک طرف تو دنیا کے امیرترین افراد کی تعداد دوگنی ہورہی تھی تو دوسری طرف اسی دوران کم از کم دس لاکھ مائیں بچوں کی پیدائش کے دوران موت کا شکار ہوگئیں کیونکہ انہیں طبی نگہداشت کی سہولتیں میسر نہیں تھیں۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں اس دنیا کے پسماندہ ممالک کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، جنہیں پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا، جہاں بچے اسکولوں سے اس لیے باہر ہیں کہ ان کے والدین ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، لاکھوں نوزائیدہ بچے اپنی عمر کے پہلے سال ہی میں فوت ہوجاتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں وہ مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ان ملکوں میں انہیں صحت کی نگہداشت کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں، وہاں چند افراد کے ہاتھوں میں اتنی دولت جمع ہے کہ ان کی آنے والی نسلیں کم از کم دو صدیوں تک آرام و آسائش کی زندگیاں گذارسکتی ہیں۔

آکسفام کی ایک رپورٹ کے مطابق سب صحارا افریقہ میں ارب پتیوں کی تعداد صرف سولہ ہے جبکہ 35.8 کروڑ افراد انتہائی غربت کی زندگی گذار رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں عدم مساوات اب اس سطح سے بھی بڑھ گئی ہے جب وہاں نسل پرست حکومت قائم تھی۔ گھانا میں ایک بچے کو اسکول بھیجنے کے لیے ایک خاندان کو اپنی آمدنی کا 40 فیصد حصہ صرف کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کی 70 فیصد آبادی ایسے ملکوں میں رہتی ہے جہاں گذشتہ تین برسوں میں دولت کی غیرمساوی تقسیم میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو بھی جائے تواس کا بالاخر فائدہ عوام کو ہی پہنچتا ہے کیونکہ یہ لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں جس سے صنعتوں اور کاروبار کو فروغ ملتا ہے لوگوں کو روزگار ملتا ہے، ان کی آمدنیوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور فلاحی ادارے چلائے جاتے ہیں جن سے ضرورت مندوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ لیکن مخالفین کہتے ہیں کہ غریب اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر اس کی قیمت چکاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان فلاحی اداروں کی ضرورت ہی اس لیے پڑتی ہے، کہ دولت کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے۔ اگر دولت منصفانہ انداز میں تقسیم ہو، تو کسی شخص کو اپنی ضروریات کے لیے فلاحی اداروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

آکسفام انٹرنیشنل کے اندازوں کے مطابق اگر ایک ارب ڈالر سے زیادہ دولت رکھنے والوں کی دولت پر 1.5 فیصد کی شرح سے ٹیکس لگادیا جائے تو اس سے سالانہ 74 ارب ڈالر کی آمدنی ہوسکتی ہے اور یہ رقم اتنی ہوگی کہ دنیا کا ہر بچہ اسکول میں داخلہ لے سکتا ہے اور دنیا کے غریب ترین ممالک کو صحت کی نگہداشت کی سہولتیں حاصل ہوسکتی ہیں۔

کیا دولتمند افراد صرف ترقی یافتہ ممالک ہی میں ہیں؟ شاید ایسا نہیں ہے۔ امیر اور غریب کا فرق ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں زیادہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کم ازکم آبادی کے وسیع حصوں کوتعلیم اور صحت کے شعبوں میں بنیادی سہولتیں حاصل ہیں۔ جبکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں دولت کی غلط تقسیم اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ آج کل تھر کیوں خبروں کی زد میں ہے؟ کیونکہ وہاں روزانہ درجنوں بچے بھوک کے نتیجے میں موت کی نیند سوجاتے ہیں اور دوسری طرف ٹنوں کے حساب سے کھانا ضائع کردیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب بھوک سے مرنے والے خاندانوں کی تعزیت کے لیے پہنچنے والے وزیروں اور اہلکاروں کے لیے شاندار دعوتوں کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔

آج پاکستان میں لاکھوں افراد غربت کی سطح سے نیچے کی زندگی گذار رہے ہیں لیکن ماہرین معاشیات کے مشوروں کے باوجود حکومتیں ایسی پالیسیاں بنانے میں ناکام رہی ہیں، جن کے نتیجے میں معیشت کی ترقی کا فائدہ عوام تک پہنچے۔ ہمارا ٹیکسوں کا نظام کچھ ایسا ہے کہ دولتمندوں کو تو ٹیکسوں میں چھوٹ ملتی ہے اور سارا بوجھ اس طبقے پر لاد دیا جاتا ہے جو پہلے ہی بھاری ٹیکسوں کی زد میں ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ نادار طبقہ کو بنیادی سہولتیں حاصل نہیں ہیں جبکہ سرمایہ داروں کی آمدنیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں جرائم اور بدعنوانیاں پرورش پاتی ہیں۔ نتیجتاً حکومت پر عوام کا اعتماد کمزور پڑتا جاتا ہے اور سیاسی بے چینی پیدا ہو تی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی پالیسیاں عوام دوست ہوں اور معاشی ترقی کا فائدہ عوام تک پہنچے۔

دولت کی غیرمساوی تقسیم کو کس طرح ختم کیا جائے، اس ضمن میں آکسفام نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں:

1۔ ٹیکس کے نظام میں اصلاح کی جائے۔ اسے منصفانہ بنایا جائے تاکہ دولتمند افراد اتنا ٹیکس ادا کریں جتنا انہیں دینا چاہیے۔

2۔ عوام کے لیے بنیادی خدمات فراہم کرنے کے منصوبوں، مثلاً تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بڑھتی ہوئی شرح سے سرمایہ کاری کی جائے ۔

3۔ ہر شخص کو روزگار اور مناسب معاوضے کی ضمانت دی جائے۔

4۔ ایسی معاشی پالیسیاں بنائی جائیں کہ عورتوں اور مردوں کو مساوی کام کا مساوی معاوضہ ملے۔ ان کے درمیان جنس کی بنیاد پر اجرت کا فرق ختم کیا جائے۔

5۔ حکومتیں اپنے عام شہریوں کی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کریں نہ کہ دولتمندوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جائے۔

مختصر یہ کہ دنیا بھر میں دولت کی تقسیم کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ باہمی تعاون کے ذریعے ہی دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اس بڑی تبدیلی کے لیے نیک نیتی سےمخلص ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں