سائنس کلچر کی غیر موجودگی

اپ ڈیٹ 21 نومبر 2014
وہ معاشرے جہاں سائنس کلچر پایا جاتا ہے، وہاں عقلی بنیادوں پر سوچنے کی قابلیت بڑھتی ہے، جو کہ تمام سائنس کی بنیاد ہے۔
وہ معاشرے جہاں سائنس کلچر پایا جاتا ہے، وہاں عقلی بنیادوں پر سوچنے کی قابلیت بڑھتی ہے، جو کہ تمام سائنس کی بنیاد ہے۔

پاکستان کے پہلے نوبیل پرائز یافتہ شخص ڈاکٹر عبدالسلام ہمیشہ سائنس کے فروغ میں ہماری ناکامی پر ماتم کرتے رہے۔ تھیوریٹیکل فزکس میں ان کی گرانقدر خدمات کے علاوہ وہ سائنس اور ریسرچ کو بڑھاوا دینے کے لیے بھی کام کرتے رہے۔ احتجاجاً پاکستان چھوڑ دینے کے بعد بھی اپنے ملک کے لیے ان کی محبت، اور سائنس کے فروغ میں حکومت کی ناکامی پر ان کے تحفظات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ اپنی تحریروں، تقریروں، اور اداروں کے ذریعے اس مسئلے پر 1996 میں اپنی وفات تک آواز بلند کرتے رہے۔

یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ان کی وفات کے 18 سال بعد بھی پاکستان میں سائنس سوسائٹی اور ریاست کی جانب سے نظرانداز کردیے گئے سوتیلے بچے کی مانند ہے۔ ضیاالحق کی اسلامائزیشن اور تعلیم مخالف پالیسیوں کی وجہ سے سائنس کو جو دھچکا 80 کی دہائی میں پہنچا، یہ اب تک اس کے اثرات سے مکمل طور پر باہر نہیں آسکی ہے۔ ویسے تو اس کو کبھی بھی ترجیحی اہمیت نہیں دی گئی، لیکن آج تو پاکستان میں اس کا وجود بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔

مشہور جریدے اکنامسٹ کے 2013 کے ایک شمارے کے مطابق او آئی سی کے ممبر ممالک اپنی مجموعی جی ڈی پی کا صرف 0.81 فیصد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کا ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ کچھ سالوں پہلے تک جی ڈی پی کا 0.3 فیصد تھا، جو کہ اس سے پہلے 0.4 فیصد ہوا کرتا تھا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا اب بھی اس خرچ میں تنزلی جاری ہے یا نہیں۔

ریسرچ پر کم خرچ سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ معاشرے میں سائنس کلچر موجود نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ طریقہ ہے، جو چھوٹے بچوں کو سائنس پڑھانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سائنس کی کتابیں روکھی اور بورنگ ہوتی ہیں۔ ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ کم قیمت سامان کے ذریعے بچوں کو عملی طور پر سائنس سکھائی جائے؟

ایک ایسا معاشرہ جہاں سائنس کلچر پایا جاتا ہے، وہاں عقلی بنیادوں پر سوچنے کی قابلیت میں اضافہ ہوتا ہے، جو کہ تمام سائنس کی بنیاد ہے۔ سائنس کلچر کے لیے ہر کسی کا سائنسدان ہونا ضروری نہیں ہے، لیکن ہاں یہ ضروری ہے کہ لوگوں میں فزیکل اور سوسشل سائنس کے لیے قدر ہو، اور وہ شخصی ترقی اور بڑھوتری میں اس کے کردار سے واقف ہوں۔

سائنس کلچر کی موجودگی سے لوگوں میں سیکھنے کی لگن اور تجسس، کھوج لگانے کی چاہ، برداشت، علمی نکات کے تبادلے، اور اگر اپنے خیالات غلط ثابت ہوجائیں، تو انہیں تسلیم کرنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو ڈاکٹر عبدالسلام نے 1984 میں یونیسکو کی ایک کانفرنس میں مسلم دنیا میں سائنس کی تنزلی کی وجوہات پر اپنی تقریر میں بیان کی تھیں۔ سائنس کلچر کی غیر موجودگی میں ہم وہ ٹیکنولاجی ڈویلپ کرنے میں ناکام رہے ہیں جو ہماری مقامی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔

یہ ناکامی نہ صرف ترقی سے ہماری دوری، اور بدتر معیارِ زندگی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، بلکہ ہماری قومی سوچ کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ اسی کی وجہ سے ہمارے لوگ عقلی و تحقیقی بنیاد پر سوچنے سے قاصر، اور کسی بھی قسم کے سوالات کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

اس مائنڈسیٹ کا پاکستان کی سماجی سائنسز کی جانب رویے پر بھی اثر ہوتا ہے، جو کہ ظاہر ہے فزکس کے قوانین کی طرح ناقابلِ تبدیل نہیں، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔

اس مسئلے کے حل، اور معاشرے میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے مشہور ماہرِ فزکس ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کی خدمات قابلِ تعریف ہیں۔ اقبال احمد سینٹر فار پبلک ایجوکیشن (www.eacpe.org) ایک ڈیجیٹل پراجیکٹ ہے، جس کا مقصد ہے کہ 'سائنس اور دلیل کو پروان چڑھایا جائے تاکہ قدرت اور معاشرے کے بارے میں سمجھ پیدا کی جائے، جس سے پاکستان کے شہری سیاسی، اقتصادی، سماجی، اور ثقافتی زندگی میں بہتر طور پر حصہ لے سکتے ہیں'۔ اقبال احمد 1990 کی دہائی میں ڈان کے مایہ ناز کالم نگار رہ چکے ہیں، اور وہ یہی کرنا چاہتے تھے لیکن طاقتور عناصر نے خلدونیا یونیورسٹی کی تعمیر میں کوئی مدد نہیں کی۔

ان کی یہ ویب سائٹ انگلش اور اردو دونوں میں دستیاب ہے، اور یہ انتہائی مشکل سائنسی سوالات کو بھی انگلش اور اردو میں آسان الفاظ میں ویڈیوز کے ذریعے سمجھاتی ہے۔ آٹھ آٹھ منٹ کی ویڈیوز کئی بنیادی باتوں پر معلومات سے بھرپور ہیں، جن سے ذہنی نشونما میں بہت مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ویب سائٹ سماجی مسائل پر بھی معلومات مہیا کرتی ہے، جیسے کہ 'امیر اور غریب ممالک، کیوں؟' اور 'قوم پرست تحریکیں اچھی یا بری؟'۔

EACPE اب آگے قدم بڑھا رہا ہے۔ اس نے 'پاکستان: ایک بہتر مستقبل کیسے بنایا جائے' کے عنوان سے ایک ویڈیو مقابلے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ موضوعات اور مرکزی خیال شہری حقوق اور ذمہ داری، اقلیتوں، قدرتی آفات، ماحولیات کے تحفظ اور دیگر ہیں۔ اس مقابلے کو جدید میڈیا کے ذریعے آگاہی پھیلانے، اور عوام میں سرگرمی بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

کئی لوگوں کی شرکت، خاص طور پر جدید میڈیا کو پسند کرنے اور اس کے استعمال میں مہارت رکھنے والے نوجوان طبقے کی شرکت کی وجہ سے یہ مقابلہ تعلیم میں نئے دروازے کھول سکتا ہے، کیونکہ اس کا مقصد سامنے موجود مسائل پر ریسرچ کرنا ہے۔ امید ہے کہ تخلیقی سوچ کو بڑھانے کے لیے دوسرے لوگ اور ادارے بھی ایسی کاوشیں کریں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔


www.zubeidamustafa.com

یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں