الیکٹرانک ووٹنگ مشینز بھی قابل اعتماد نہیں: ای سی پی

14 نومبر 2014
ہندوستان میں گزشتہ تین عام انتخابات کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کا استعمال کیا جاچکا ہے—اے ایف پی فائل فوٹو۔
ہندوستان میں گزشتہ تین عام انتخابات کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کا استعمال کیا جاچکا ہے—اے ایف پی فائل فوٹو۔

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ایک رکن نے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کے اراکین کو اس وقت حیرت زدہ کردیا جب انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینز میں فراڈ کے امکانات روایتی ووٹنگ کے جتنے اور اس سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

ای سی پی کے ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن ٹیکنالوجی خضر عزیز نے کیمٹی کو بتایا کہ ان مشینوں میں بھی ہیرا پھیری کرکے نتائج تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ مشینیں بلو ٹوتھ اور دیگر وائرلیس ڈیوائزز سے بھی ہیک کی جاسکتی ہیں۔

انہوں اراکین کو بتایا کہ ان مشینوں میں سٹوریج کے موقع پر بھی مداخلت ممکن ہے۔

انہوں نے اس موقع پر اس تاثر کو مسترد کردیا کہ ان مشینوں کے ذریعے 100 فیصد شفاف اور منصفانہ انتخابات ممکن ہیں۔

انہوں نے چھ یورپی ممالک کی مثال دی جہاں ان مشینوں کو استعمال کیا جاتا تھا تاہم خرابیوں کے باعث وہ روایتی طریقوں پر واپس آگئے۔

انہوں نے بتایا کہ جرمنی کی سپریم کورٹ ان مشینوں کو ’غیر آئینی‘ قرار دے چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان تین عام انتخابات ان مشینوں پر کراچکا ہے تاہم وہاں بھی ان مشینوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان انتخابات پر آج بھی سوالیہ نشان ہے۔

ای سی پی افسر نے ہندوستانی الیکشن حکام سے اپنی ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں جس سے یہ پتہ چل سکے کہ آیا کسی مشین میں چھیڑ خانی کی گئی ہے۔

ہندوستانی حکام نے عزیز صاحب کو بتایا کہ 14 لاکھ مشینوں کی توثیق کرنا ممکن نہیں۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشینز اس وقت امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، فرانس، آسٹریا، انڈیا اور اسٹونیہ میں استعمال کی جارہی ہیں۔

کمیٹی ان مشینوں کے مثبت پہلوؤں سے بھی آگاہ کیا گیا جن میں ان کی رفتار اور درستگی قابل ذکر ہیں جبکہ ان سے مسترد کردہ ووٹوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جن کی وجہ سے درجنوں حلقے گزشتہ انتخابات کے دوران تنازعات کا شکار ہوگئے تھے۔

بائیو میٹرکس پر پینل کو بتایا گیا کہ نادرا کے پاس خیبر پختونخوا کے 10 سے 12 فیصد ووٹرز کا ڈیٹا موجود نہیں جس کی وہاں موجود نادرا کے نمائندے نے تصدیق کی۔

اس کے علاوہ اس بات کا انکشاف ہوا کہ بائیو میٹرک ڈیٹا میں 10 سے 15 فیصد غلطی کے بھی امکانات موجود ہوتے ہیں کیوں کہ جو لوگ مزدوری کا کام کرتے ہیں یا جو جلدی امراض کا شکار ہوتے ہیں ان کے انگوٹھوں کے نشانات تبدیل ہوسکتے ہیں۔

نادرا کے نمائندے نے بتایا کہ بوڑھے افراد کے فنگر پرنٹس میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں