گوانتانامو کا ایک قیدی -- فائل فوٹو
گوانتانامو کا ایک قیدی -- فائل فوٹو

گوانتانامو کے مسئلہ پر امریکی صدر بارک اوباما کی تقریر کے دو پہلو ہیں- اول تو یہ کہ اوباما کے الفاظ کے مطابق گوانتانامو؛

"دنیا بھر میں اس بات کی علامت بن گیا ہے کہ امریکہ قانون کی حکمرانی کا احترام نہیں کرتا"

 دوسرے پہلوکا تعلق ان اثرات سے ہے جو، کانگریس سے ان کی درخواست کے نتیجے میں کہ گوانتانامو سے قیدیوں کو ہٹانے پر عائد پابندیوں کوختم کر دینے سے ہمارے خطّے میں رونما ہونگے-

اوباما کے پیغام کو احتیاط سے تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد امریکی عوام کو یہ باور کرانا تھا کہ گوانتانامو کو بند کردینے کے نتیجے میں قوم سے وہ "داغ" مٹ جائیگا جسے اس بات پر فخر ہے کہ "وہ قوانین کا احترام کرنے والی قوم ہے" نہ کہ ایسی قوم جو قوانین کو بالائے طاق رکھتی ہے اور اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا اور اس کے علاوہ پیسوں کی بھی بچت ہو گی-

ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومتی شعبوں کے بجٹ میں کٹوتی کے اقدامات کئے جارہے تھے انہوں نے زور دیکر یہ بات کہی کہ وہاں رکھے گئے 166 قیدیوں پر سالانہ تقریبا 150 ملین ڈالر کے مصارف ہو رہے ہیں- اور اس صورت میں کہ قیدی وہیں محبوس رہتے ہیں تو دفاع کے شعبے نے مزید 200 ملین ڈالرز کی درخواست کی ہے- اس کا مطلب یہ ہے، انہوں نے کہا کہ اس رقم کو بچایا جاسکتا ہے اور بچایا جانا چاہئے-

اوباما نے یہ تجویز پیش کی کہ گوانتانامو کو بند کرنے کی صورت میں ان قیدیوں کو امریکہ کے ایسے قیدخانوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے جہاں سیکیورٹی کے اعلیٰ انتظامات موجود ہیں اور انہوں نے اپنے سامعین کو یہ بھی یاد دلایا کہ آج تک وہاں سے فرار ہونے میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہوسکا-

اس بات کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہ سینکڑوں دہشت گرد جو گوانتانامو کے قیدیوں سے کہیں زیادہ خطرناک تھے امریکی عدالتوں سے سزا پا چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہر قیدی کو عدالتی ریویو کا حق حاصل ہو گا اور اس مقصد کیلئے دفاع کے شعبے سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ امریکہ میں کسی ایک مقام کا تعین کرے جہاں ملٹری کمیشن قائم کئے جا سکیں-

جہاں تک ان قیدیوں کا تعلق ہے، جن کے بارے میں علم ہے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث تھے، لیکن ان پر مقدمہ اسلئے نہ چلایا جا سکا کیونکہ ان کے خلاف جو شہادتیں حاصل تھیں انھیں عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاسکتا تھا، وہ کوئی ٹھوس حل پیش نہ کرسکے- لیکن انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ؛

"یہ مسئلہ جو ہمیں ورثے میں ملا ہے حل ہو سکتا ہے اور یہ کہ اس ضمن میں قانون کے مطابق عمل کیا جائیگا"-

اس کا تعلق زیادہ تر ان قیدیوں سے ہے جن پر یا تو امریکہ کے اندر ہی اذیت رسانی یا پھرغیرمعمولی اضافی تشدد کے ذریعہ شواہد حاصل کے گئے- یہ بتانا مشکل ہے کہ "یہ ورثہ میں ملا ہوا مسئلہ" کس طرح حل ہوگا-

پاکستان کے نقطہء نظر سے اور اس خطّے کے تناظر میں اوباما کی تقریر کا اہم ترین حصہ وہ فیصلہ تھا جس کے ذریعہ یہ بتایا گیا تھا کہ گوانتانامو کے قیدیوں کو دیگر ممالک منتقل کردیا جائیگا-

پہلے تو انہوں نے یہ کہا کہ؛

"میں قیدیوں کو یمن منتقل کرنے پرعائد پابندیوں کو اٹھا رہا ہوں- چنانچہ ہم ہر مقدمہ کا انفرادی بنیادوں پر جائزہ لےسکتے ہیں- جس حد تک ممکن ہو ہم ان قیدیوں کومنتقل کرینگے جن پردیگر ممالک میں جانے پر کوئی قباحت نہیں ہے"-

اس فیصلہ کے پس منظرکے بارے میں اخباری اطلاعات کے مطابق تقریباً 57  یمنی قیدی ایسے ہیں جنہیں الزامات سے بری تو کر دیا گیا ہے لیکن ان کی منتقلی اس لئے روک دی گئی تھی کیونکہ تشویش اس بات پرتھی کہ انہیں انکے اپنے ملک میں مناسب طور پر کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا-

ظاہر ہے کہ یمن میں ایک نئی حکومت کے قیام کے بعد امریکیوں کو اس بات پر زیادہ اعتماد ہے کہ جو لوگ رہا ہونگے وہ دہشت گردوں کی صفوں میں نہ تو شامل ہونا چاہیں گے نہ ہی انہیں اس بات کا موقع ملیگا کہ وہ ان کی صفوں میں شامل ہوجائیں-

دوسرے، انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ میں ایک نئے سینئر سفیر کا تقرر کیا جائے گا؛ "جس کی واحد ذمہ داری یہ ہو گی کہ وہ کسی تیسرے ملک کو قیدیوں کی منتقلی کا انتظام کرے"-

انہوں نے یاد دلایا کہ بش کے دور میں تقریبا 530 قیدیوں کو منتقل کیا گیا تھا اور یہ کہ خود ان کے دور صدارت میں مزید 67 قیدیوں کو کانگریس کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں سے قبل رہا کر دیا گیا تھا-

جیسا کہ اس زمانے میں ہوا تھا، ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ نیا سینئر سفیر اس ملک کی حکومت سے مذاکرات کریگا جہاں قیدیوں کو منتقل کیا جائیگا اور ان سے پوچھا جائیگا کہ وہ ان سے کس قسم کا برتاؤ کرینگے اور انھیں کس قسم کی آزادی حاصل ہوگی-

اکثرو بیشتر اس قسم کی رپورٹیں آتی رہی ہیں، جس پر کانگریس کو تشویش بھی رہی ہے کہ بش دور میں جن افغانوں کو رہا کیا گیا تھا وہ فوراً ہی دوبارہ افغان طالبان تحریک میں شامل ہو گئے اور اسکی وجہ یہ تھی کہ گوانتانامو میں قید القاعدہ کے کٹر خیالات کے حامل قیدیوں نے ان کے ذہن کو تبدیل کر دیا تھا-

میں یہ سمجھتا ہوں کہ عالم اسلام کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کیلئے رہائی حاصل کرنا آسان ہوگا بہ نسبت افغان قیدیوں کے- کیونکہ امریکنوں کو کرزئی انتظامیہ کے تعلق سے اور افغانستان کے عدالتی نظام کے تعلق سے شکوک و شبہات ہیں کہ وہ واپس آنے والے قیدیوں پر کسی قسم کی پابندیاں عائد نہیں کرینگے-

تاہم مجھے یقین ہے کہ دیگر افغان قیدیوں کی منتقلی پر جو بھی پابندیاں عائد کی جائیں، طالبان اورامریکہ کے مابین قیدیوں کے تبادلے کے امکانات ایک بار پھر نظر آتے ہیں-

مذاکرات کے ناکام ہونے سے پہلے، جس کی وجہ کرزئی انتظامیہ کا یہ انکشاف تھا کہ، طالبان اور امریکہ کے مابین خفیہ مذاکرات ہو رہے تھے- جن کے نتیجے میں گوانتانامو کے پانچ طالبان قیدیوں کی رہائی ایک امریکی سپاہی کے تبادلہ میں قطر میں ہونا تھی، جو طالبان کی حراست میں تھا اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اس قیدی کے تبادلے کے موقعہ پر طالبان رسمی طور پر اعلان کرینگے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات توڑ لینگے- ساتھ ہی وہ کسی نہ کسی صورت میں مفاہمت کیلئے افغانوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز کرینگے- کرزئی انتظامیہ خود ان مذاکرات کا حصہ بننا چاہتی تھی-

درایں اثناء کانگریس اس بات کی مخالفت کر سکتی ہے کہ گوانتانامو کے قیدیوں کو امریکی سرزمین پر منتقل کیا جائے، نیز اوباما کی دیگر تجاویز پر بھی معترض ہو سکتی ہے- لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پانچ طالبان کو قطر منتقل کرنے کی حمایت کی جائیگی- لیکن کیا اتنا کافی ہو گا؟

کرزئی انتظامیہ اس بات کی سخت مخالف ہے کہ دوحہ میں طالبان کے دفتر کو سوائے طالبان اور کرزئی کی حکومت کے مابین مذاکرات کے، کسی اور مقصد کیلئے استعمال کیا جائے- امریکی صدارتی سطح پر 11 جنوری کے مشترکہ اعلامیہ میں اس موقف کی توثیق کر چکے ہیں-

سوال یہ ہے کہ کیا امریکی اب کرزئی کو اس بات پر آمادہ کر سکیں گے کہ وہ اپنی سوچ کو تبدیل کردیں؟

بصورت دیگر کیا وہ کرزئی کے ساتھ اپنے موجودہ نازک تعلقات کو مزید خطرے میں ڈالنے اور قیدیوں کا تبادلہ کرنے کیلئے تیار ہیں؟ اگر امریکی 2014 کے انخلا سے پہلے مفاہمتی عمل شروع کرنے کے خواہشمند ہیں تو انھیں چاہئے کہ وہ اس میں موجود خطرات کے باوجود کوئی نہ کوئی فیصلہ کریں کیونکہ فی الحال تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کا وہ حصّہ جو مفاہمت چاہتا ہے اس وقت تک اگلا قدم نہیں اٹھاسکتا جب تک قیدیوں کا تبادلہ نہ ہو جائے-


 ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں