گڈ مارننگ کراچی: مشکلات میں گھری لڑکی

04 جنوری 2015
گڈ مارننگ کراچی تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم لڑکی ایک سادہ کہانی ہے— فوٹو بشکریہ "گڈمارننگ کراچی" آفیشل فیس بک پیج
گڈ مارننگ کراچی تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم لڑکی ایک سادہ کہانی ہے— فوٹو بشکریہ "گڈمارننگ کراچی" آفیشل فیس بک پیج
بیو ظفر نے ایسی خالہ کا کردار ادا کیا ہے جو رفینا کو خوابوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
بیو ظفر نے ایسی خالہ کا کردار ادا کیا ہے جو رفینا کو خوابوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

یہ فلم کئی سال پہلے تیار ہوئی اور آخرکار یکم جنوری 2015 کو پاکستان بھر میں ریلیز کردی گئی۔

پہلے اس کا نام رفینا تھا مگر اب اسے گڈ مارننگ کراچی کے نام کے ساتھ ریلیز کیا گیا ہے جو ڈائریکٹر صبیحہ ثمر (خاموش پانی) کی نئی کاوش اور پاکستانی سینما کے لیے پہلی فلم ہے۔

یہ وہ فلم ہے جس سے ماڈل آمنہ الیاس نے اداکاری کے کیرئیر کا آغاز کیا وہ اس میں غریب گھرانے کی پرعزم لڑکی کا کردار ادا کررہی ہے جس کا تعلق کراچی کے نچلے طبقے سے ہوتا ہے اور وہ سماجی بندشوں کو توڑ کر اپنا آپ منوانے کی کوشش کررہی ہوتی ہے۔

رفینا کی ماں (صبا حمید) کی زندگی کا واحد مقصد بیٹی کی شادی ہوتا ہے جس میں رفینا کو بالکل بھی دلچسپی نہیں ہوتی، فلم کے ایک منظر میں وہ اپنے بھائی کو پرجوش انداز میں بتاتی ہے " کیا تم جانتے ہو بالائی طبقے کی خواتین کے اپنے اپارٹمنٹس ہوتے ہیں جہاں وہ اپنی بلیوں کے ساتھ رہتی ہیں؟"

بھائی رفینا کو اپارٹمنٹ کی ' اجازت' تو دیتا ہے مگر بلیوں کے ساتھ یا تنہا رہنے کی نہیں۔

یہ فلم پاکستانی مصنف شاندانہ منہاس کے ایک مختصر ناول کی کہانی پر تیار کی گئی ہے۔

فلم میں کراچی شہر کے بدلتی روزمرہ کی زندگی کے مناظر جیسے سماجی، سیاسی اور مذہبی انتشار کو ہر صبح ریڈیو میزبان خالد ملک کی آواز میں بیان کیا جاتا ہے ، یعنی بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی جانب سے خواتین ماڈلز کے بل بورڈ جلانا یا چہرے مٹا دینے وغیرہ۔ یہی وہ چیز ہے جس کو دیکھ اندازہ ہوتا ہے کہ فلم کا نام رفینا سے تبدیل کرکے گڈمارننگ کراچی کیوں رکھا گیا۔

فلم فرسودہ کرداروں سے بھری ہوئی ہے، اس میں آپ کو ایک سیلون کی مالکہ نظر آئے گی جس کے بالوں کا انداز مردانہ و زنانہ دونوں خوبیاں رکھتا ہے، بے صبر مگر محبت کے قابل ماڈلنگ ایجنسی کا سربراہ جو رفینا کو ایک اچھی فیشن ماڈل بنانے کی کوشش کرتا ہے، بہت زیادہ تحفظ فراہم کرنے والی ماں، شرارتی مگر تعارن کرنے والا چھوٹا بھائی، سونے کے دل والی خالہ وغیرہ۔

معروف ڈیزائنر دیپک پروانی نے بھی اس فلم میں ایک کردار ادا کیا ہے جبکہ لوگ اسٹائلسٹ مریم عظیمی، گلوکارہ زوئی وکاجی، پروڈیوسر مہر جعفری، اداکار محب مرزا، ماڈل ربیعہ چوہدری، فوٹو گرافر ذیشان چوہدری کو بھی مختلف النوع ' چھوٹے ' کرداروں میں دیکھ سکتے ہیں۔

یہ سب مل کر پاکستان کے بالائی طبقے کو تشکیل دیتے ہیں جس کا حصہ بننا رفینا کا خواب ہوتا ہے۔

اگرچہ فلم کا مرکزی خیال فیشن انڈسٹری ہے مگر اس میں 'فیشن' بہت کم ہے، فلم کے بڑے حصے میں رفینا گھر میں ایسا لباسوں میں ملبوس نظر آتی ہے جو کھارادر کے ماحول سے بالکل الگ نظر آتا ہے یہاں تک کہ ایک فیشن شو میں بھی اس کی 'شخصیت' سادہ اور سپاٹ لگتی ہے اور میک اپ یا بالوں کے انداز میں کوئی جدت نظر نہیں آتی۔

فلم میں مرکزی کردار کی شخصیت کو زیادہ اچھے انداز سے پیش نہیں کیا گیا اور آمنہ الیاس فلم میں کچھ زیادہ ہی سانولی نظر آرہی ہیں حالانکہ عام زندگی میں ایسا نہیں یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن مناظر میں میک اپ کا کم استعمال ہونا چاہئے تھا وہاں اسے بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔

یہ فلم سیاہی مائل خوبصورتی کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور رفینا ایسی ماڈل ہوتی ہے جو آمینہ شیخ جیسی رنگت کی حامل ہوتی ہے اور اپنے کمرے کی کھڑی سے باہر نظر آنے والے بل بورڈ کے ماڈل سے متاثر ہوتی ہے۔

فلم کی سینمافوٹوگرافی اکثر حصوں میں سادہ ہےاور رفینا کے چھوٹے اپارٹمنٹ اور تاریک گلیوں کو خوبصورتی سے پیش کرتی ہے۔ یہ آمنہ الیاس کی پہلی فلم ہے جو "زندہ بھاگ" سے پہلے تیار ہوئی اور اس میں آمنہ کی اداکاری فطری نظر آتی ہے۔

صبا حمید نے ماں کا کردار اچھی طرح نبھایا ہے چونکہ وہ متعدد بار ایسے کردار کرچکی ہیں تو وہ بالکل ویسی ہی نظر آرہی ہیں۔ بیو ظفر خالہ کے روپ میں ہیں جو رفینا کو خوابوں کی تعبیر پانے میں مدد فراہم کرتی ہے اور ان کا کردار اچھا ہے جبکہ یاسر عقیل نے رفینا کے بے روزگار منگیتر کے کردار کے تقاضوں کو نبھایا ہے۔

فلم کے دیگر کرداروں کے بارے میں کچھ کہنا بیکار ہے کیونکہ وہ کوئی تاثر پیدا کرنے میں ناکام رہے تاہم یہ اداکاروں کی غلطی نہیں بلکہ ان کرداروں پر ہی زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔

آخر میں ہم بس یہ کہیں گے کہ گڈ مارننگ کراچی تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم لڑکی ایک سادہ کہانی ہے جسے قدامت پسندانہ ذہنیت، مذہبی بنیادی پرستی اور سیاسی عدم استحکام جیسے عناصر کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں