'رام کی جنم بھومی ایودھیا میں نہیں، پاکستان میں ہے'

05 مئ 2015
بابری مسجد جسے انتہا پسند ہندوؤں نے رام کی جنم بھومی قرار دے کر مسمار کردیا تھا۔ —. فائل فوٹو
بابری مسجد جسے انتہا پسند ہندوؤں نے رام کی جنم بھومی قرار دے کر مسمار کردیا تھا۔ —. فائل فوٹو

حیدرآباددکن: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن عبد الرحیم قریشی نے کہا کہ رام کی جائے پیدائش ایودھیا میں نہیں پاکستان میں ہے۔

انہوں نے یہ بیان اپنی کتاب ’ایودھیا کا تنازعہ‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔

اس موقع پر مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے کہا کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت کی وجہ سے بابری مسجد کے انہدام کے معاملے میں انصاف کی امید دھندلی ہو گئی ہے۔

عبدالرحیم قریشی نے بتایا کہ اپنی کتاب میں انہوں نے ماہرِ آثارِ قدیمہ جاسو رام کے تحقیقی مقالات شامل کیے ہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ رام کی جائے پیدائش ایودھیا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی پیدائش رام ڈیری میں ہوئی تھی، قیامِ پاکستان کے بعد اس کا نام بدل کر رحمان ڈیری کر دیا گیا تھا۔

عبدالرحیم قریشی نے کہا کہ رام کی جنم بھومی شاید ہڑپّہ میں ہوگی، جو پاکستان میں واقع ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب تک ایودھیا میں تین مرتبہ کھدائی ہو چکی ہے، لیکن ابھی تک وہاں سے رام کے متعلق ثبوت نہیں ملے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰؑ سے کئی صدیاں قبل ایودھیا میں کسی تہذیب آثار نہیں ملے ہیں۔

یاد رہے کہ رام کی جنم بھوم قرار دیتے ہوئے بابری مسجد کو 1992 میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسمار کر دیا گیا تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے اڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی تھی۔

تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992 کو ہزاروں ہندو کارسیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے اعلیٰ سطح کے رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں