این اے 125، پی پی 155: الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ معطل

اپ ڈیٹ 11 مئ 2015
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے لاہور کے حلقے این اے 125 اور پی پی 155 میں دوبارہ انتخابات سے متعلق الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو دونوں حلقوں میں ضمنی انتخاب سے روک دیا ہے۔

الیکشن ٹریبونل نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 125 اور صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 155 میں انتخابی دھاندلی ثابت ہونے پر دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم جاری کیا تھا۔

انتخابی ٹریبیونل نے این اے 125 اور پی پی 155 سے متعلق اپنے تفصیلی فیصلے میں دھاندلی کے بجائے بے ضابطگیوں کا ذکر کیا تھا جبکہ قوانین پر عملدرآمد میں ناکامی اور پولنگ کے ریکارڈ کی گمشدگی کا ذمہ دار بنیادی طور پر انتخابی عملے کو قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں:این اے 125، پی پی 155 میں دوبارہ انتخابات کا حکم

جس کے بعد خواجہ سعد رفیق نے این اے 125 سے متعلق الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے میں دھاندلی ثابت نہیں ہو سکی اور ایسی صورت میں دوبارہ انتخابات کا فیصلہ آئین کی خلاف ورزی ہے، لہذا حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

پیر کو جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے خواجہ سعد رفیق کی درخواست پر سماعت کی۔

سعد رفیق کی جانب سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

عدالت نے سعد رفیق کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کا این اے 125 میں دوبارہ انتخابات کا فیصلہ معطل کردیا۔

ساتھ ہی پنجاب اسمبلی کے حلقہ این اے 155 میں دوبارہ انتخابات سے متلعق الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ بھی معطل کردیا گیا۔

عدالت نے سیکرٹری الیکشن کمیشن، متعلقہ ریٹرننگ افسران اور تحریک انصاف کے امیدوار حامد خان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونل سے تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔

جبکہ کیس کی سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے حامد خان نے حلقہ این اے 125 سے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق کی اہلیت کو چیلنج کر رکھا تھا، جبکہ پی پی 155 سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے میاں نصیر احمد منتخب ہوئے تھے۔

این اے 125 سے خواجہ سعد رفیق 123,416 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے، جبکہ پی ٹی آئی کے حامد خان نے 84,495 ووٹ حاصل کیے تھے۔

الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ آنے کے بعد خواجہ سعد رفیق قومی اسمبلی جبکہ میاں نصیر احمد صوبائی اسمبلی سے ڈی سیٹ ہوگئے تھے۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ٹریبونل کے فیصلے میں انھیں دھاندلی کے الزامات سے بری الذمہ قرار دیا گیا تھا، لہذا الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کی تشریح ہونی چاہیے۔

سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ان پر ایسا الزام زندگی میں پہلی بار لگا ہے، وہ اپنا مقدمہ میرٹ پر لڑیں گے اور جھوٹ اور سچ جلد سامنے آجائے گا۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ وہ جلد سرخرو ہوں گے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے این اے 125 اور پی پی 155 میں دوبارہ انتخابات سے متعلق الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو صرف ایک ماہ کے لیے معطل کیا ہے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ ن لیگ کی حکومت یہ ظاہر کر رہی ہے کہ این اے 125 میں پریزائیڈنگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی جانب سے کی گی بے ضابگیاں "صرف تفریح کے لیے" تھیں اور ان سے خواجہ سعد رفیق کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے مسلم لیگ (ن) حکومت کی جانب سے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی این اے 122 کے انتخابی نتائج کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ کو مسترد کیے جانے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

خان May 11, 2015 01:43pm
مجھے سو فیصد یقین ہے اگر اس حلقے میں دوبارہ الیکشن بھی ہو گیا تو نون لیگ کا امیدوار ذیادہ بڑی اکثریت سے کامیاب ہو گا۔
Israr Muhammad Khan Yousafzai May 11, 2015 07:20pm
جب سعد رفیق کے حلاف ٹریبیونل کا فیصلہ ایا تھا اسی دن مجھے یقین ھوگیا تھا کہ اس فیصلے کو عدالت پہلے معطل اور بعد میں کالعدم قرار دیگا کیونکہ ٹریبیونل کا فیصلہ مبہم تھا اور اس میں بہت کمزوریاں تھیں بے ضابطگیوں کو. الیکشن کلعدم کرنے کا جواز نہیں بنایا جاسکتا حامد نے دھاندلی کا الزام لگایا تھا جو وہ ثابت نہ کرسکا جج نے بھی اپنے فیصلہ میں یہی لکھا ھے