دھرما راجیکا: ٹیکسلا کی ڈھائی ہزار سال قدیم جامعہ

گندھارا تہذیب کے تاج میں 'دھرما راجیکا' کی حیثیت ایک بے بہا اور چمکتے ہوئے ہیرے جیسی ہے۔ تھوڑا تصور کریں اور اس زمانے کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ایک طرف دنیا میں جنگ و جدل کی بگلیں چیختی ہوئی سنائی دیں گی؛ روم میں جنگیں ہو رہی تھیں، دجلہ کے کنارے پر خون بہایا جا رہا تھا، اور اناطولیہ میں نیلے آسمان پر بغاوتوں کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔

دوسری طرف چین میں 'کن شی ہوانگ' (Qun Shi Huang) ملک میں رابطوں میں وسعت پیدا کرنے کے لیے تین رویہ سڑکیں اور ان کے کناروں پر درختوں کی قطاریں لگا رہا تھا۔ یونانی ماہر ریاضی اور فلکیات 'کینن' (Canon) اپنی چوتھی کتاب پر کام کر رہا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شمال مغربی علاقوں کے بہت سے یونانیوں نے بدھ مت قبول کرلیا تھا۔ چنانچہ مشہور بھکشو 'دھرما راجیکا'، جو خود ایک یونانی تھا، کو اشوک نے یونانی نوآبادیوں میں تبلیغ کے لیے ٹیکسلا بھیجا۔

اشوکا دو بار ٹیکسلا میں گورنر رہ چکا تھا، اس نے جب اپنے باپ 'بندوسار' کے بعد حکومت سنبھالی تو باپ اور دادا کے جنگی جنون نے اس سے بھی سکھ، شانتی اور سکون چھین لیا اور جنون تھا ملک کی سرحدیں بڑھانے کا۔ اس نے 'کلنگا' پر حملہ کیا اور انسانوں کے بہتے ہوئے خون میں اپنی کامیابی کے بیج بو دیے۔ لاکھوں انسانوں کی بے بس اور بے نور آنکھوں نے اشوکا سے اس کا سکون چھین لیا۔ اپنے کھوئے ہوئے سکون کو واپس لانے کے لیے اس نے اپنے سارا دھیان انسانوں کی بھلائی کے لیے لگا دیا اور 'بدھ مت' میں ہی اس کو اپنے کھوئے ہوئے سکون کی چھاؤں نظر آئی۔

دھرما راجیکا اسٹوپا
دھرما راجیکا اسٹوپا
دھرما راجیکا اسٹوپا
دھرما راجیکا اسٹوپا
اسٹوپا کی سیڑھیاں
اسٹوپا کی سیڑھیاں

'دھرما راجیکا' ٹیکسلا میں پہلی بدھ خانقاہ تھی جو اشوک نے بنوائی۔ اشوکا نے اپنی سلطنت میں آٹھ مقامات پر ایسے اسٹوپا بنوائے جن میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کر دیے گئے تھے، ٹیکسلا کا یہ اسٹوپا ان سب میں سے ایک تھا۔

سبط حسن لکھتے ہیں: "اشوک اعظم سے کنشک تک وادیٔ سندھ کی تہذیب نے بدھ مت کے سائے میں فروغ پایا تھا۔ چنانچہ اس دور کی فنی تخلیقات کی محرک بھی وہ گہری عقیدت تھی جو ہر طبقے کے لوگوں کو گوتم بدھ کی ذات اور تعلیمات سے تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب 'بھکشو' بھی عوام کی سادہ زندگی گذارتے تھے۔ وہ گاؤں گاؤں تبلیغ کرتے پھرتے، بھیک سے پیٹ بھرتے اور رات ہوتی تو کسی باغ میں درخت کے نیچے سو رہتے۔

بدھ مت کا بانی گوتم سدھارتھ، داریوش کا ہم عصر تھا۔ وہ ساکیہ قوم کے سربراہ 'سدھورن' کا اکلوتا بیٹا تھا، سدھورن کی راجدھانی 'کپل وستو' کی شمالی سرحد پر واقع تھی۔ یہ چھوٹی سی ریاست تھی، اور وہاں کے لوگ آریا نہیں تھے۔ انتیس برس کی عمر میں سدھارتھ نے اپنا راج محل چھوڑا۔ پہلے اس نے رشی 'الارا کلاما' کے پاس جا کر 'اپنشدھ' کا درس لیا پر اپنشدھ اسے شانتی نہ دے سکا۔ پھر جنگلوں کی خاک چھانتا ایک دن ''گیا'' شہر کے قریب گاؤں کی ایک عورت 'شوجا' نے اسے بھیک میں چاول کی کھیر دی۔ کھیر کھا کر گوتم پیپل کے ایک درخت کے نیچے گیان دھیان کرنے بیٹھ گیا، محویت کے اس عالم میں اسے پہلی بار معرفت ہوئی اور وہ بدھ (عارف) بن گیا۔ گوتم نے پہلا وعظ بنارس کے قریب 'سارناتھ' کے مقام پر ایک باغ میں دیا۔ وہ جہاں جاتا غریب اور کم ذات والے اس کے پیرو بن جاتے۔ گوتم 80 برس تک جیا اور 'کشی نگر' کے مقام پر اپنی سانسیں تیاگ دیں۔"

دھرما راجیکا
دھرما راجیکا
دھرما راجیکا
دھرما راجیکا

آپ ٹیکسلا میوزیم سے تھوڑا جنوب مشرق کی طرف جا کر، پھر سیدھی مشرق کی طرف جاتی ہوئی سڑک پر چلے جائیں تو ڈھائی تین کلومیٹر کے بعد آپ کو رکنا پڑتا ہے۔ یہاں ٹھہر کر شمال کی طرف والی پہاڑیوں کو آپ دیکھتے ہیں۔ کیونکہ دھوپ تیز ہے اس لیے آپ آنکھوں کے اوپر ہاتھ کا چھجا بنا کر دیکھتے ہیں اور وہاں 'دھرما راجیکا' ہے۔ پھر آپ پیدل چلنا شروع کرتے ہیں۔ تھوڑا چلنے کے بعد جب پانی کا نالہ کراس کر کے اوپر پہنچتے ہیں، تو سامنے آپ کو ایک پیپل کا پیڑ نظر آتا ہے۔

میں جب وہاں پہنچا تو اس پیپل کے پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں میں ایک چارپائی پڑی تھی، جس پر دو آدمی بیٹھے تھے۔ میں جب ان کے پاس پہنچا تو تیسرا آدمی سلگتی لکڑیوں پر شام کی چائے بنا رہا تھا۔ میں مئی کی دھوپ میں پسینے سے شرابور ہو کر آیا تھا، اس لیے پیپل کی چھاؤں مجھے اچھی لگی، اور جس جذبے اور زبان کی شیرینی سے مجھے چائے پلائی گئی وہ بھی مجھے اچھی لگی۔

چائے پینے کے بعد میں نے مشرق کی طرف دیکھا جہاں ایک وسیع و عریض جامعہ کے آثار تھے جو خاموشی کی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے۔ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے جیسے وقت نے ان سے ان کی زبان اور رنگ چھین لیے ہوں لیکن جیسے آپ ان کے نزدیک جا کر جگاتے ہیں تو وہ آنکھیں مل کر جیسے اٹھ بیٹھتے ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان سے کس طرح باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔

دھرما راجیکا کامپلیکس
دھرما راجیکا کامپلیکس
دھرما راجیکا کامپلیکس
دھرما راجیکا کامپلیکس
دھرما راجیکا کامپلیکس
دھرما راجیکا کامپلیکس

ٹیکسلا نے اپنی علم دینے کی روایت کو صدیوں تک قائم رکھا اور یہ سب شاید اس لیے ممکن ہوسکا کہ یہاں کا معاشرہ نہایت محفوظ معاشرہ تھا۔ لوگ بڑے امن پسند اور صلح جو تھے۔ لوٹ مار، قتل و غارت گری ان کا شیوہ نہ تھا۔ وہ نہ سپاہ و لشکر رکھتے تھے اور نہ کسی ملک پر حملہ کرتے تھے۔ اسی سکون بھرے آسمان کی بدلیوں سے علم و فلسفے کی جھڑیاں لگتی تھیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو برصغیر میں علم و ادب کا یہ سب سے بڑا مرکز نہ ہوتا۔

راجا پشکرشکتی (565 ق۔م) کے زمانے میں طلباء یہاں کی جامعات میں تینوں ویدوں اور اٹھارہ ودیاؤں میں ہدایت حاصل کرتے تھے۔ 'اپنشدھ' میں ان علموں کی جو ناموں کی فہرست دی گئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں: تاریخ، وید کے گرامر، عروض و بیان، منطق، اخلاقیات، ہندسہ، شگون اور ذائچہ شناسی، جوتش، قربانی کے اصول، بھوت ودیا، حربیات، زہریات، عطرکشی، رقص، موسیقی اور کھیل کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اپنشدھ میں ٹیکسلا کے تعلیمی معیار کو بہت سراہا گیا ہے اور لکھا ہے کہ: 'پاننی' اور 'پتنجلی' جیسے گیانی پنڈت یہاں تعلیم دیتے ہیں۔

دھرما راجیکا کامپلیکس
دھرما راجیکا کامپلیکس
دھرما راجیکا سے ہتھیال کا پہاڑی سلسلہ
دھرما راجیکا سے ہتھیال کا پہاڑی سلسلہ
بدھ کا ٹوٹا ہوا مجسمہ
بدھ کا ٹوٹا ہوا مجسمہ

پسینہ خشک ہوگیا تھا مگر چائے کی شیرینی ابھی منہ میں گھلتی تھی۔ میں اس عظیم درسگاہ 'دھرما راجیکا' کی خاموش اور پر وقار آثاروں کو دیکھنے کے لیے چل پڑا۔

ریکارڈ ہمیں بتاتا ہے کہ 1794 میں بنارس کے راجہ 'چیٹ سنگھ' کے وزیر 'جگت سنگھ' نے کچھ ڈھونڈنے کے لیے ان آثاروں کو کھود ڈالا، اس کھدائی کے نتیجہ میں اس کو سنگ مرمر کا ایک ہرے رنگ کا صندوقچہ ملا جس میں بدھ کی تبرکات تھیں۔ اس صندوقچہ کو گنگا میں بہایا گیا تھا، وہ صندوقچہ آج بھی کلکتہ میوزیم میں محفوظ ہے۔

کھدائی سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ابتداء میں یہ اندازاً 13.49 میٹر کا ایک چھوٹا اسٹوپا تھا، بعد میں اسٹوپا کو چھ مختلف مراحل میں وسیع کیا گیا۔ اس کی اونچائی بڑھائی گئی، یادگار مورتیوں سے سجا ہوا راستہ بنایا گیا جس کو بعد میں میدھی (اسٹوپا کو چار طرفہ گولائی میں دی گئی ایک چھوٹی دیوار) کی شکل دی گئی، اور چاروں طرف اسٹوپا تک جانے کے لیے عمدہ سیڑھیاں بنائی گئیں۔ وہ سیڑھیاں خستہ ہی سہی لیکن اتنی صدیاں گذرنے کے بعد بھی ابھی تک موجود ہیں۔

دھرما راجیکا کامپلیکس
دھرما راجیکا کامپلیکس
دھرما راجیکا کامپلیکس
دھرما راجیکا کامپلیکس

میں نے سامنے 'ہتھیال' پہاڑیوں کا سلسلہ دیکھا جو 'موہڑہ مرادو' تک چلا جاتا تھا۔ مئی کا مہینہ تھا اس لیے پہاڑ پر گھاس سوکھی ہوئی تھی اور پہاڑیوں کا رنگ پھیکا مٹیالا سا تھا۔ ایک خاموشی ہے جو ان آثاروں کی جڑوں میں بستی ہے، خاص کر آپ جب سوچتے ہیں کہ کتنی صدیاں (تیسری صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی عیسوی تک) طالبعلموں کی روحانی اور علمی تشنگی کو یہاں کے معلم بجھاتے رہے، اور آنے والے وقت اور زندگی کے لیے کتنی نئی جہتیں بنتے رہے۔ 'اپنشدھ' اور 'بھگوت گیتا' کی تعلیمات سے بعض عالموں نے نتیجہ اخذ کیا کہ عناصر اربعہ، یعنی آگ، پانی، مٹی، ہوا، اور آواگون اور آہنگ کے نظریے یونانی فلسفیوں (تھالیس، انیکسمانڈر، ایمپوڈا کلیس اور فیثاغورث) نے ٹیکسلا کے پنڈتوں سے مستعار لیے تھے۔ یونان اور ٹیکسلا میں رابطے کی بنیاد یہ تھی کہ پانچویں صدی قبل مسیح میں دونوں ملک ایرانی سلطنت میں شامل تھے۔

چاول پیسنے کا پتھر
چاول پیسنے کا پتھر
دھرما راجیکا
دھرما راجیکا
بدھ کا ٹوٹا ہوا مجسمہ
بدھ کا ٹوٹا ہوا مجسمہ

محترم مالک اشتر لکھتے ہیں: "بدھ بھکشو اور طالبعلم شہر کے شور و غل سے دور رہنے کے عادی تھے، اسی وجہ سے سرکپ کے جنوب مشرق میں، پہاڑیوں میں گھری ایک عظیم جامع دھرما راجیکا تھی جس میں دنیا بھر سے سینکڑوں تشنگان علم اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔ بدھ بھکشوؤں کی یونیورسٹی دھرما راجیکا اسٹوپا کا شمار برصغیر کی قدیم ترین اسٹوپا میں ہوتا ہے۔"

وقت کا دھارا ہماری زندگی کے دنوں کو تو گِن گِن کر چن لیتا ہے مگر علم و تحقیق کی زمین کو اور زرخیز بناتا جاتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گذرتا ہے، زندگی کے متعلق بنے ہوئے فلسفوں میں ادھیڑ بن کا عمل جاری رہتا ہے، پھر یہ وقت کا کام ہے کہ وہ اپنے حیات کے آنگن میں فلسفوں کے کن بیجوں کو بوتا ہے، کن کو اپنا سمجھ کر آبیاری کرتا ہے اور کتنوں کو سوکھنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ جب تک یہ جیون ہے، یہ ادھیڑ بن چلتی رہے گی۔

بدھ مت جس نے غریب اور نیچی ذات کے کچے آنگنوں میں جنم لیا تھا وہ جب بادشاہوں کے محلوں تک پہنچا تو تبدیلی ایک فطری عمل تھا۔ سبط حسن لکھتے ہیں: "شاہی اسٹوپاؤں کی دیکھ بھال کے لیے بھکشو مقرر ہوئے، ان کے رہنے کے لیے 'وہار' بنائے گئے اور آس پاس کی زمین ان کے مصارف کے لیے وقف کردی گئی۔تب یاتریوں کی آمدورفت شروع ہوئی۔۔بھکشوؤں نے یاترا کے ضابطے اور رسموں کی ادائیگی کے قاعدے وضع کئے۔ بدھ اور اس کے چیلوں کی مورتیاں بننے لگیں، مَنت کے چڑھاؤں اور نذرانوں کے انبار لگنے لگے۔ اردگرد رسوم سے متعلق اشیاء کی دکانیں لگنے لگی، اسٹوپاؤں کے چاروں طرف صنم تراشوں، زرگروں، کمہاروں، ساہوکاروں، تعویذ مالا اور پھول بیچنے والوں کے بھی بازار کھل گئے۔ وہار ابتدا میں کھلے کھلے حجرے ہوتے تھے لیکن جب دولت کی ریل پیل ہوئی تو حجروں میں دروازے لگ گئے اور وہاروں کر گرد دیواریں کھنچ گئیں۔

بھکشووں کی عبادت کے کمرے
بھکشووں کی عبادت کے کمرے
بھکشووں کی عبادت کے کمرے
بھکشووں کی عبادت کے کمرے
بدھ کا ٹوٹا ہوا مجسمہ
بدھ کا ٹوٹا ہوا مجسمہ

اشوک کے بعد 460 تک 'دھرماراجیکا' نے باختری، ساکا، پارتھی، کشنوں کی حکومتیں دیکھیں، اور ان ساری حکومتوں کے حاکموں کا رویہ بدھ مت کے لیے احترام والا رہا، جس کی وجہ سے یہ جامع دیس بدیس مشہور رہی۔ پھر 460 میں یہاں 'حنوں' کی وحشت نے سب برباد کردیا۔ اور اس بربادی کی سوکھی فصلیں اب تک دھرماراجیکا میں اگتی ہیں۔

آرکیالاجی ڈپارٹمنٹ کا گائیڈ جس نے پہلے چائے پلائی اور اب مجھے یہاں کے عبادت کے کمروں، اسٹوپا میں پوشیدہ رازوں، پانی کے تالاب، آٹا پیسنے کی جگہ، وہاروں، بدھا کے مٹی سے بنے ہوئے مجسموں کے متعلق بڑی دلچسپی سے بتا رہا تھا۔ بیچ میں اپنی زندگی کے دکھڑے بھی سناتا، اور ان آثاروں کے متعلق لوک کہانیاں تھیں جن کا ذکر بھی ساتھ ہوتا رہتا۔ میں نے سائیٹ مکمل کی اور واپس آکر کچھ لمحوں کے لیے چارپائی پر بیٹھا۔ پانی پیا اور جانے کے لیے میں ان سے گلے ملا۔ بڑے دلدار لوگ تھے۔ اس وقت جب میں یہ الفاظ تحریر کر رہا ہوں تو اپنے کو دھرما راجیکا میں پاتا ہوں۔ تیز دھوپ میں پیپل کے پیڑ کے نیچے بیٹھا ہوں۔ چائے کی شیرینی منہ میں اور ان لوگوں کے پیار بھرے الفاظوں کی چاشنی ذہن میں گھلتی ہے۔

— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ


حوالہ جات:

"پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء"۔۔۔سبط حسن (اُردو)

"تاریخ میں گم ہوتا شہر"، دستاویزی فلم از محمد عامر رانا تحقیق: انجنیئر مالک اشتر

Wikipedia.org

Britannica.com

Souvenir TAXILA. By: M.Hanif Raza


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔