طلبا اپنی زبانیں بند رکھیں

13 جنوری 2016
— کریئٹو کامنز۔
— کریئٹو کامنز۔

اگر ہمیں آف لائن آزادی اظہار کا حق پوری طرح حاصل نہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس ڈیجیٹل دور میں بھی آزادی اظہار کے خلاف کارروائیوں پر کوئی احتجاج نہ کریں، خاص طور پر جب بات ہمارے طلباء کی ہو۔

تدریسی ماحول دینے کے ساتھ انہیں کسی سزا کے خوف کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی سکھایا جانا چاہیے۔

اسی لیے جب کسی طالب علم کو یونیورسٹی کی منعقدہ تقریب کے خلاف تبصرہ کرنے پر نکال دیا جائے، تو یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔

یہ کوئی اکلوتا معاملہ نہیں بلکہ پچھلے کچھ مہینوں میں نجی اداروں اور کالجوں میں ایسے طلبا جو محض مختلف طریقوں سے، جس میں لباس سے لے کر کیمپس میں متنازع شخصیات کو دعوت دینا شامل ہے، اپنی آزادی اظہار کو ظاہر کر رہے تھے، ان کو ادارے سے نکال دیا گیا۔

اس بار پی ایچ ڈی کے طالب علم کاشان حیدر گیلانی کو فیس بک پر کسان میلے کے بارے میں تنقیدی تبصرہ تحریر کرنے پر نکال دیا گیا۔ اپنی مرضی کے تحت کیے گئے اس بے ضرر فعل کی اتنی سخت سزا کے بارے میں اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ غفلتوں کی نشاندہی کرنے والے کے خلاف، طاقت اور برتری کو استعمال کرتے ہوئے سخت کاروائی کی جاتی ہے۔

کاشان پر یونیورسٹی بدنام کرنے کا الزام لگایا گیا اور ادارے کی ساکھ کو ٹھیس پہنچانے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا، جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ادارے کی ناموس اتنی ہی کمزور ہے کہ ایک تبصرے سے خراب ہوجائے۔

طلبا کو تدریسی اوقات کے علاوہ، ذاتی عمارت میں بیٹھ کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر سزا دیا جانا، اتنا وسیع اور سخت کنٹرول ہے کہ یہ کسی بھی طرح قانونی نہیں ہو سکتا۔

آئین پاکستان کی شق 19 اظہار رائے کی آزادی دیتی ہے، بھلے ہی اس میں کئی شرائط موجود ہیں۔ تعلیمی میدان میں داخل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ طلبا اپنی شہری حقوق سے دستبردار ہوجائیں اور اظہار کی آزادی گنوا بیٹھیں۔ بلکہ طلبا کے لیے اس حق کا استعمال اور بھی اہمیت کا حامل ہے۔

اداروں میں آزاد خیال رکھنے والوں اور آواز اٹھانے والوں کو ڈرانے، دھمکانے اور سزا دینے کا رجحان اتنا زیادہ ہے کہ خراب پالیسیوں اور ناقص خدمات پر اظہارِ رائے کی جگہ نہیں بچتی۔ تعلیمی اداروں کے احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مخالف آواز کا ہونا بجا طور پر ضروری ہے۔

اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسی حالت ہے تو معاشرے کے باقی حصوں جیسے حکومت اور سیاست میں کیا حالت ہوگی؟

سخت تنبیہہ، بے دخلیاں اور پابندیاں ہمارے معاشرے کی فطرت کا حصہ بن گئیں ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم مراحل پر اعتبار کرنے کے بجائے طاقت کے اظہار کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھ چکے ہیں۔

تقسیم ہند سے قبل علی گڑھ جیسے تعلیمی ادارے کارکنوں، مفکروں اور شاعروں کی افزائش کو فروغ دیتے تھے، اسی طرح یونیورسٹیوں نے پاکستان میں بھی رجعت پسند حکومتوں کے خلاف بھرپور طریقے سی مزاحمت میں مدد فراہم کی۔

ہم طلبا کو نظم و ضبط اور تعلیم پر توجہ رکھنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کا مہرہ بننے نہیں دے سکتے، لیکن ہمیں ان کو بحث کا حصہ ضرور بننے دینا چاہیے کیونکہ وہ بھی ہمارے لیے ایک با ضمیر اسٹیک ہولڈر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

قدیم ایتھنز کے بچے ہمیشہ مفکر اور فلسفی بننا چاہتے تھے، جو کوئی بھی اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک آپ کا استاد ذرا سی بھی تنقیدی سوچ یا معاشرتی رسم رواج اور اقدار پر سوال اٹھانے پر آپ کی پٹائی کر ڈالے۔

افسوس کے ساتھ ہمارے تعلیمی ادارے ایسے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جنہوں نے یہ شعبہ آخری چارے کے طور پر اپنایا، اور وہ اپنے علم کو اخلاقی برتری سمجھتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ صرف اطاعت چاہتے ہیں، جس میں سوال جواب کی گنجائش نہ ہو۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز طلبا کو اپنے حقوق بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ طلبا کی جانب سے کی گئی تنقید اور وضاحتوں کو ہماری آن لائن تحفظ کی ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 13, 2016 07:28pm
شدت پسندی اور عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ بھی زبان بند رکھنے کی تلقین و ترغیب ہے ! زبان بند رکھنے والوں کو علم نہیں کہ بقول ساحر لدھیانوی: دبے گی کب تلک آوازِ آدم ہم بھی دیکھیں گے رکیں گے کب تلک جذبات برہم ہم بھی دیکھیں گے چلو یونہی سہی یہ جورِ پیہم ہم بھی دیکھیں گے درزنداں سے دیکھیں یا عروجِ دار سے دیکھیں تمہیں رسوا سرِ بازارِ عالم ہم بھی دیکھیں گے ذرا دم لو مآلِ شوکتِ جم، ہم بھی دیکھیں گے یہ زعمِ قوتِ فولاد و آہن دیکھ لو تم بھی بہ فیض جذبۂ ایمان محکم ہم بھی دیکھیں گے جبینِ کج کلاہی خاک پرخم، ہم بھی دیکھیں گے مکافاتِ عمل، تاریخ انساں کی روایت ہے کروگے کب تلک ناوک فراہم، ہم بھی دیکھیں گے کہاں تک ہے تمہارے ظلم میں دم ہم بھی دیکھیں گے یہ ہنگامِ وداع شب ہے، اے ظلمت کے فرزندو سحر کے دوش پر گلنار پرچم ہم بھی دیکھیں گے تمہیں بھی دیکھنا ہوگا یہ عالم ہم بھی دیکھیں گے
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Jan 13, 2016 07:39pm
واقعی یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ نا اہلیوں اورکوتاہیوں کی نشاندہی کرنے والے کے خلاف، طاقت استعمال کرتے ہوئے سخت کاروائی کی جاتی ہے۔ یو﷽ ں تو دن رات میڈیا پر جمہوریت کا راگ الاپہ جاتا ہے لیکن سچ سننے کا حوصلہ نہیں ۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی بھی نااہلی کو عوام کے سامنے نا لائے ، آنکھ ، کان اور زبان بند رکھے معاشرے میں سدھار لانے کی کوشش نہ کرے ورنہ اسے سدھار دیا جائے گا،
Imran Khan Jan 14, 2016 07:58am
Its totally bad behavior with the students at the university level and how a teacher or lecturer forbid his students from social activities. I agree with the writer!
Ashian Ali Malik Jan 14, 2016 01:31pm
جس ملک کے نصاب میں لاہور کے بھگت سنگھ کی بجائے ہزاروں میل دور کے ٹیپو سلطان کو ہیرو بتایا جاتا ہو۔ جس نصاب میں مذہب کے نام پر جھوٹی تاریخ پرھائی جاتی ہو۔ جس معاشرے میں دلیل دینے والے کو واجب قتل قرار دیا جاتا ہو ۔ ایسے میں جہالت کے نمائندوں کو طالب علم سمجھ کر تنقید کی آڑ میں فتویٰ لگانے کا اختیار نہیں دیا جانا چاہیے۔ سوال ، تنقید اور فتویٰ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے سوال کرنے کی آزادی تنقید کرنے کا ماحول فراہم کرنا چاہے۔ مگر فتویٰ لگانے کا اختیار دینا معاشرے کی بربادی کا باعث ہو گا۔ فیصل آباد یونیورسٹی نے طالب علم کو سزا دے کر درست فیصلہ کیا تھا۔ آئین قانون اور اخلاقیات آزادی اظہار اور سوال کرنے کی آزادی فراہم کرتے ہیں نہ کہ فتویٰ لگانے کی ۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 14, 2016 05:17pm
@Ashian Ali Malik صاحبہ، آپ نے کیسے اخذ کیا کہ طالبعلم نے تنقید اور اظہار رائے نہیں کی بلکہ فتویٰ صادر کیا ہے؟ کیا طالبعلم کسی مدرسے یا اسلامی قانون کا ماہر ہے؟ ان سوالات کا جواب نہیں میں برآمد ہو گا کیونکہ فتویٰ صادر کرنا عالم دین کا کام ہے اور اسی کی آواز بطور فتویٰ کے مانی جاتی ہے۔ جب کہ طالبعلم پی ایچ ڈی کا سٹوڈنٹ تھا جس نے اپنی دانست میں رائے دی اور کہا کہ ناچ گانا ہماری ثقافت اور اقدار کے منافی ہے۔جس کی پاداش میں اسے باہر نکال دیا گیا۔ یہی ہو رہا ہے ملک میں،چائلڈ ابیوز کے نام پر،حقوق نسواں کے نام پر اور کلچر کے نام پر ملک کی ثقافتی اور مذہبی اقدار کو ملیا میٹ کر کے مغربی اور غیرملکی کلچر کو نامحسوس طریقے سے ٹھونسا جا رہا ہے،فحاشی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔کیا وجہ کہ جب سے مبینہ انسانی حقوق کی بلندی کے لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں دھڑا دھڑ بن رہی ہیں اور اپنا کام کر رہی ہیں، اسی شرح سے خاندانی نظام تباہ ہو رہا ہے، شرح طلاق اور شرح خلع آسمان کو چھو رہی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے یہ۔ مجھے اس پر روشن خیالی کا علمبردار نہیں بننا۔۔۔ مِرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر