اسلام آباد: وفاقی حکومت سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو انٹرپول کے ذریعے واپس وطن لانے کی یقین دہانی کرا کر مشتعل اپوزیشن کے غصے کوٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

تاہم یہ معاملہ اتنا آسان نہیں کیونکہ ماضی میں بھی انٹرپول سابق آمر کو حوالے کرنے کی حکومت پاکستان کی درخواست مسترد کرچکا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے گزشتہ ہفتے پرویز مشرف کو ’علاج‘ کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔

21 مارچ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے، حکومت کو اس بات پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا اپوزیشن کی اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ یا کوئی دوسری عدالت حکم دے تو سابق صدر کو انٹرپول کے ذریعے واپس پاکستان لایا جائے گا۔

یاد رہے کہ سال 2011 اور 2012 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انٹرپول سے کم از کم 3 مرتبہ بیرون ملک مقیم پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی تھی، تاہم انٹرپول نے یہ کہہ کر ہمیشہ حکومت کی درخواست مسترد کردی کہ ایف آئی اے نے پرویز مشرف کی حوالگی کے لیے مطلوبہ ثبوت فراہم نہیں کیے۔

پرویز مشرف کو 2010 میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں نامزد کیا گیا تھا، جبکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2011 میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔

بے نظیر بھٹو قتل میں اسپیشل پراسیکیوٹر محمد اظہر چوہدری نے ڈان کو بتایا کہ ایف آئی اے نے، انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ذریعے انٹرپول سے پرویز مشرف کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب پرویز مشرف اب شاید خود ہی وطن واپس آئیں کیونکہ وہ کئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ اپنے خلاف زیر التوا کیسز کا سامنا کریں گے۔

دوسری جانب سابق صدر کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ نہ ہی پرویز مشرف اور نہ ہی ان کے کسی وکیل نے کبھی اُن کی واپسی کی ضمانت دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں ہے، غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو علاج کے لیے 31 مارچ 2014 کو ہی بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی، لیکن وفاقی حکومت نے بیمار شخص کو دو سال انتظار کرائے رکھا۔

یاد رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف مختلف عدالتوں میں غداری کیس، بے نظیر بھٹو قتل کیس، ججز نظر بندی کیس اور غازی عبد الرشید قتل کیس زیرِ سماعت ہیں۔

یہ خبر 24 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں