بھوپال: صدف محمود کے شوہر کی جانب سے صرف تین بار طلاق کہنے سے نہ صرف اس کو والدین کے گھر جانا پڑا بلکہ ان تین الفاظ نے اس کی زندگی تباہ کر دی۔

اسلامی معاشرے میں مرودں کی جانب سے خواتین سے علیحدگی کیلئے یہ 3 الفاظ کہے جاتے ہیں، صدف محمود کے شوہر نے بھی ’طلاق، طلاق، طلاق‘ یا ’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘ کے تین الفاظ کہہ کر 5 سالہ شادی شدہ زندگی کو ختم کیا۔

تین بچوں کی ماں صدف محمود نے بتایا کہ ہمارے درمیان شادی کے بعد جلد ہی اختلافات شروع ہوگئے تھے، ہمارے تعلقات بہت کشیدہ بھی ہوتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے شوہر کے منہ سے ’طلاق‘ کا نام سن کر شدید صدمہ ہوا تھا۔

صدف محمود کا تعلق ہندوستان کے شہر بھوپال سے ہے، وہ ان ہندوستانی مسلم خواتین میں شامل ہیں جن کو ان کے شوہر تین بار ’طلاق‘ دے کر شادی ختم کرتے دیتے ہیں۔

طلاق دینے کا رواج اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور واٹس اپ پر بھی رائج ہوتا جا رہا ہے۔

خواتین کو ان کے شوہر کی جانب سے فیس بک اور واٹس اپ کے ذریعے ’تین الفاظ ‘ کے پیغامات ملتے ہیں جو خواتین کی زندگی تباہ کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔

کئی مسلم ممالک میں ایک ساتھ 3 طلاق دینے کی ممانعت ہے تاہم ایک سیکولر ملک ہندوستان میں ایک ساتھ 3 طلاق دینا عام سی بات ہے۔

31 سالہ صدف محمود نے بتایا کہ طلاق نامہ کسی اطلاع یا تنبیہہ کے بغیر عورت کو دیا جاتا ہے اور پھر وہ اپنے شوہر کی مدد کے بغیر ضرورتیں پوری کرنے میں اپنی زندگی کو گزار دیتی ہے۔

ایک اور طلاق یافتہ خاتون سائرہ بانو نے سپریم کورٹ میں طلاق کے غلط استعمال کو غیر قانونی دینے کے لیے درخواست جمع کروائی ہے۔

ایک انٹرویو میں سائرہ بانو نے بتایا کہ میں جانتی ہوں کہ میری شادی ختم ہوچکی ہے لیکن اس طلاق کے غلط رواج کو ختم کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسری مسلمان خواتین کو یہ اذیت نہ سہنی پڑے۔

خواتین دوسرے درجے کی شہری

ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں میں 20 کروڑ آبادی مسلمانوں کی ہے، جہاں مسلمانوں کے اپنے ذاتی قوانین ہیں، مسلمانوں کو ہندؤوں کی اکثریت میں ہونے کے باوجود مذہبی آزادی حاصل ہے۔

خواتین کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لاء اپلیکشن ایکٹ (جو شرعی قوانین کے مطابق ہے) ایک ساتھ 3 بار طلاق کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس قانون کا غلط اطلاق کیا جارہا ہے اور مرد حضرات جب چاہیں اپنی مرضی سے خاتون کو 3 بار طلاق دے اپنی زندگی سے نکال کر پھینک دیتے ہیں۔

مسلمان خواتین کو بااختیار بنانے والے ایک فلاحی ادارے، بھارتیہ مسلم ماہیا اینڈولن کی کارکن سعدیہ اختر کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ دوسرے درجے کا شہری جیسے سلوک کیا جاتا ہے، مرد ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہوئے مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

گزشتہ سال ایک فلاحی ادارے کی جانب سے مسلمان خواتین کا سروے کیا گیا، جس میں زیادہ ترخواتین نے طلاق کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اپنا ووٹ دیئے۔

سروے میں 4000 میں سے 500 خواتین کا کہنا تھا کہ ان کے شوہروں نے مذہب کا غلط استعمال کرتے ہوئے انہیں طلاق دی ہے۔

ایک فلاحی ادارے کی جانب سے طلاق کے خلاف چلائی گئی دستختی مہم چلائی گئی جس میں 50ہزار مسلمان خواتین نے حصہ لیا۔

قرآن کے مطابق طلاق کا طریقہ کار 90 دن میں مکمل ہوتا ہے، پہلی طلاق دینے کے بعد مزید دو طلاق دی جاسکتی ہیں لیکن ہر بار طلاق دینے کے لیے 30 دن (ایک مہنے ) کا وقفہ ہوگا۔

علماء کرام کا کہنا ہے کہ 90 دن طلاق کا وقت اس لیے دیا جاتا ہے کہ فریقین ان وقت میں آپس میں صلح کے لیے رجوع کریں تاکہ ان کی شادی شدہ زندگی ختم ہونے سے بچ جائے۔

زیادہ تر علماء کرام کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ 3 بار طلاقیں دینا قرآن کے منافی ہے جبکہ ساتویں صدی میں یک مشت 3 طلاق دینے کی باقاعدہ اجازت دی گئی تھی۔

نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر اختراللہ واسع کا کہنا ہے کہ مرد طلاق کا حق آخری حربے کے طور پر استعمال کرے، جب اس کا بیوی کے ساتھ گزار مشکل ہو جائے لیکن آج کل مردوں نے طلاق کا غلط استعمال کرنا اپنا حق سمجھا ہوا ہے۔

بہت سارے مسلمان ممالک جیسے بنگلہ دیش میں تین بار طلاق دینے پر پابندی ہے جبکہ پاکستان میں تین بار طلاق دینے کے خلاف قانون سازی کرنے کے حوالے سے تاخیر کا شکار ہے۔

تبدیلی نا قابل قبول

ہندوستان میں مسلمان علماء مذہبی شناخت ختم ہونے کے خوف سے قوانین میں ترمیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، مسلمان علماء کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے کچھ ہندو انتہا پسند اس بہانے ان کے تمام قوانین کو تبدیل کردیں گے۔

2014 میں نریندر مودی کے ہندوستانی وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد مسلمانوں کے اس خوف میں اضافہ ہوا ہے،مودی حکومت تمام مذہبی اقلیتوں کے مخصوص قوانین کو تبدیل کرنا چاہتی ہے ، جس کا مقصد قومی اتحاد کا قیام بتایا جاتا ہے۔

اس حوالے سے آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے رکن کمال فاروقی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے مطابق شریعت پر عمل کرکے زندگی گزارنے کا حق ہے اور جس کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔

ایک ساتھ 3 بار طلاق دینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ مسئلہ تو موجود ہے لیکن قوانین کی تبدیلی ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ تین بار طلاق کے رواج کو ختم کرے اور قرآن کے مطابق اگر دونوں فریقین ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو وہ باعزت طریقے سے الگ ہوجائیں اور قرآن کے قوانین پر پوری طرح عمل کریں۔

بھوپال سے تعلق رکھنے والی شائستہ علی کا کہنا ہے کہ میرے شوہر کے اچانک طلاق دینے پر میں نے علماء کرام سے رجوع کیا لیکن ’علماء نے میری مدد کرنے کی بجائے میرے سسرال والوں کا ساتھ دیا‘۔

طلاق یافتہ صدف محمود کو معلوم ہوگیا کہ اس کی شادی ختم ہوچکی ہے لیکن وہ پرامید ہیں کہ بہت جلد کسی بھی لڑکی کی زندگی کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے تبدیلی ضرور آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم طلاق کو روک نہیں سکتے لیکن ہمیں ایسے قوانین بنا کر سزائیں مقرر کرنی ہوں گی جس کے بعد مرد ایک ساتھ تین بار طلاق، طلاق، طلاق دیتے ہوئے 10 بار سوچے۔

یہ خبر 11 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں