19 طویل سالوں تک وہ آزادی کی آس لیے قید خانے میں تڑپتا رہا۔ اس کی جوانی، اس کی زندگی آہستہ آہستہ اس کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتی گئی۔

سردیاں گرمیوں میں، اور گرمیاں سردیوں میں بدلتی رہیں، کچھ نہ بدلا تو اس کی قسمت، نہ آیا تو رہائی کا موسم۔

لیکن پھر آخر ایک دن ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کو اس کے حال پر رحم آیا، اور اسے بے قصور قرار دے دیا گیا: "مظہر حسین کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔ "

بے قصور ثابت ہو کر بری کیے جانے پر اس کے گھر میں خوشی کا سماں ہونا چاہیے تھا، مگر نہیں تھا۔ باعزت بری ہونے کے انتظار میں مظہر حسین فیصلہ آنے سے دو سال قبل ہی زندگی کی قید سے آزاد ہو چکا تھا۔

اس کا قاتل؟ ہمارا نظامِ انصاف۔

کہاوت ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ ڈینیئل ویبسٹر نے انصاف کو وہ جوڑ قرار دیا تھا جو مہذب افراد اور مہذب اقوام کو بندھن میں باندھے رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہے، تو پاکستان کو جوڑوں کا شدید مرض لاحق ہے۔

اس قتل کے ذمہ دار تمام حلقوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی جاری ہے۔ پولیس وکلاء پر، وکلاء ججوں پر، اور جج پولیس پر عدم توجہ اور غفلت کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

مشہور شاعر اور ناول نگار جیمز بالڈوِن نے کہا تھا؛

"اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ

ملک میں انصاف کیسے ملتا ہے

تو پولیس سے نہ پوچھیں،

نہ ہی وکلاء سے،

نہ ہی جج صاحبان سے

اور نہ ہی تحفظ کے حامل متوسط طبقے سے۔

آپ کو سماج کے غیر محفوظ لوگوں سے پوچھنا چاہیے،

وہ غیر محفوظ لوگ

جنہیں قانونی تحفظ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

آپ کو ان کی گواہی سننی چاہیے۔"

سچ تو یہ ہے کہ نظامِ انصاف کے لنگڑے پن کی ذمہ داری مدعیان پر بھی اتنی ہی عائد ہوتی ہے جتنی کے نظامِ انصاف کے دیگر حصوں پر۔ مدعی بسا اوقات اپنے مفاد کے لیے تاخیری حربوں کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ مقدمہ لٹکتا رہے۔ یوں وہ ضلع کچہری میں داخل ہوتے ہی وہ قسمت، تقدیر یا کرما پر اپنا بچا کھچا ایمان گنوا بیٹھتے ہیں۔

پولیس، ان سب سے زیادہ بدعنوان ادارہ، شکار کا خون آہستہ آہستہ چوستے رہنے پر یقین رکھتا ہے جب تک کہ جسم میں شکاری کو دینے کے لیے اور کچھ باقی نہ رہ جائے۔

ظاہر ہے کہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی سے تب تک فائدہ اٹھایا جانا چاہیے جب تک کہ وہ انڈے دینے بند نہ کر دے۔

لہٰذا رپورٹس روکی جاتی ہیں، تفتیش و تحقیقات میں تاخیر کی جاتی ہے، معلومات فراہم نہیں کی جاتیں، اور ثبوت ذرہ ذرہ کر کے پیش کیے جاتے ہیں۔ یوں انصاف کو ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔

مگر اس سے بھی زیادہ پریشان کن رویہ اس برادری کا ہے جسے قانون کا محافظ سمجھا جاتا ہے، یعنی وکلاء۔ بار کونسلیں انتہائی غیر اہم معاملات پر بھی ہڑتالیں کرتی رہتی ہیں، جبکہ وکلاء کمزور وجوہات کی بناء پر سماعتیں ملتوی کرواتے رہتے ہیں۔

یہاں تک کہ میں خود گواہ ہوں کہ ایک وکیل نے ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ ایک ذیلی عدالت میں لگاتار 9 سماعتوں پر پیش نہ ہونے پر دلائل کا جو حق ان سے لے لیا گیا تھا، انہیں واپس دلوایا جائے۔

پڑھیے: انصاف کے استحصال کی کہانی، ایک وکیل کی زبانی

جب عدالت نے ان سے استفسار کیا تو انہوں نے باقاعدہ فہرست گنوائی کہ کس طرح نو کی نو سماعتوں پر ان سے متعلقہ کسی شخص کی شادی تھی، یا کسی کی موت ہوگئی تھی۔

اس بات پر کمرہء عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا جیسے کہ یہ کوئی مضحکہ خیز بات ہو۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی وکیل، جن کے پاس ہائی کورٹ میں پریکٹس کا لائسنس نہیں ہوتا، ذیلی عدالتوں سے یہ بہانہ کر کے سماعتیں ملتوی کرواتے ہیں کہ فلاں فلاں تاریخوں کو وہ ہائی کورٹ میں مصروف ہیں۔

اس طرح کے لوگوں کے لیے نظامِ انصاف ایک ایسی لونڈی کی مانند ہے جن پر ان کے خصوصی حقوق ہیں، اور یہ حق انہیں ان کے کالے کوٹوں کی وجہ سے ملتا ہے۔

وقتاً فوقتاً وکلاء برادری کے ایسے غلط رویے پر برادری کے اندر بھی آوازیں اٹھائی گئی ہیں، مگر جو لوگ اس بارے میں کچھ کر سکتے ہیں، انہیں الیکشن بھی تو جیتنے ہوتے ہیں، اور جو لوگ اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے، ان کی شکایتیں بہرے کانوں پر گرتی ہیں۔

مگر وکلاء کی یہ سستی اور بے حسی جج صاحبان کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ ان کی خواہشات اور ان کی مرضیاں سب سے بلند ہوتی ہیں۔ ان کی ذاتی مصروفیات نظامِ انصاف کی جانب ان کی ہر ذمہ داری کے آڑے آ سکتی ہیں اور آتی بھی ہیں۔

میرے اپنے ایک مقدمے میں سماعت دونوں وکلاء اور گواہان کی موجودگی کے باوجود ملتوی کر دی گئی تھی کیوں کہ جج صاحب اس دن جلدی جانا چاہتے تھے، کیوں کہ (ان کے اپنے الفاظ میں) "بیوی سے دوپہر کو شاپنگ کروانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔"

میں مجبوراً خفیف سی مسکراہٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پایا۔

اس طرح کے لوگوں کے ہاتھوں نظامِ انصاف اس قدر یرغمال بن چکا ہے کہ مقدمے کئی دہائیوں تک لٹکے رہتے ہیں۔ اس ملک کے غریب لوگوں کی کئی نسلوں نے تھوہر کے ان پودوں کو سینچا ہے جو بے آب و گیاہ میدانوں سے پانی کا آخری قطرہ تک چوس لیتے ہیں۔

اور جب ان غریبوں کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں بچتا، تو پھر ان کا مقدمہ بھلا کر کسی دیمک لگی الماری میں پھینک دیا جاتا ہے۔

پڑھیے: بھٹو کی پھانسی: انصاف یا عدالتی قتل؟

بار کونسل کی ہر تقریب، عدلیہ کے ہر اعلیٰ سطحی اجلاس میں، سیاسی تقریروں میں، ٹی وی ٹاک شوز میں نظامِ انصاف میں اصلاحات کی باتیں کی جاتی ہیں، مگر اس مسئلے پر حقیقت میں جو سطحی توجہ دی گئی ہے، وہ کبھی بھی اس نظام سے متاثر لاکھوں لوگوں کی تکلیف دور نہیں کر سکتی۔

اگر کوئی ایسا مسئلہ ہے جسے جلد سے جلد حل کیا جانا چاہیے، تو وہ یہی مسئلہ ہے۔

مظہر حسین کی زندگی کے 19 سال واپس نہیں لوٹائے جا سکتے، مگر تھانوں اور کورٹ کچہریوں کے دھکے کھاتے اور جیلوں میں سڑتے لاکھوں بے قصوروں کی مشکلات آسان کر کے ایک طرح سے تلافی ضرور کی جا سکتی ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

Imran Oct 11, 2016 06:22pm
Acha Likha hai, Hum nay aik kaan sunna aur doosray say nikal dia hai.Kash beechara start k year meen mar jaata .
انوارالحق Oct 11, 2016 06:58pm
پاکستان کی جیلوں میں کتنے نامعلوم مظہر حسین ہیں ? مظہر حسین کے کتنےقاتل ہیں? سب سے پہلا قاتل وہ پولیس والا ہے جس نے F I R میں اسے قاتل نامزد کیا . دوسرا قاتل جھوٹا گوہ . تیسرا قاتل مخالف وکیل. چوتھا قاتل منصف . پانچواں قاتل ملکی نظام. قاتلوں کی ایک طویل فہرست ہے انھیں کون سزا دے گا?
DR KHALID MHMOOD SHOUQ Oct 11, 2016 08:43pm
کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی!!! کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
اسد Oct 12, 2016 07:44am
بہت اچھا کالم ہے جس میں ہمارے عدالتی نظام کی کوتاہیوں کو بہت خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے.