جنوری سے ستمبر 2016 کے دوران دنیا بھر کا درجہ حرارت صنعتی دور سے قبل کے مقابلے میں 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ یا 2.16 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ ہوگیا اور ہمارا سیارہ اس سرخ لکیر کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے بعد تباہی کو روکنا ناممکن ہوجائے گا۔

یہ بات اقوام متحدہ کے ادارے برائے موسمیات (ڈبلیو ایم او) نے ایک رپورٹ میں بائی۔

عالمی ادارے کے مطابق 2016 دنیا کی تاریخ کا سب سے گرم سال ثابت ہونے والا ہے اور یہ ایسا 'سنگ میل' ہے جس کے سنگین ترین نتائج مونگوں کی چٹانوں اور آرکٹک کی سمندری تہہ کو برداشت کرنا پڑرہے ہیں۔

عالمی رہنماءدرجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں، جس کی وجہ سے سمندری سطح میں خطرناک تبدیلیاں، قدرتی آفات اور دیگر اثرات مرتب ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

اس حوالے سے پیرس میں ہونے والے موسمیاتی معاہدے میں عالمی درجہ حرارت میں اضافہ صنعتی دور سے قبل کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کی بات کی گئی ہے، جس کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس ہدف کے حصول سے تباہ کن موسمیاتی اثرات کی روک تھام کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

چار نومبر سے یہ معاہدہ نافذ العمل ہوچکا ہے جس میں دنیا بھر کے تمام ممالک نے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی اور روایتی ایندھن کا استعمال کم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

مگر اب ڈبلیو ایم او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کے اولین نو ماہ کے دوران عالمی درجہ حرارت 1961 سے 1990 کے مقابلے میں 0.88 فیصد تک بڑھ چکا ہے جس کی وجہ بحر اوقیانوس میں غیرمعمولی طور پر مضبوط ایل نینو کی لہر بھی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں