اسلام آباد: پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کو 3 دن میں ملک چھوڑنے اور وجہ بتائے بغیر ویزوں میں توسیع نہ دینے کے احکامات اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیئے گئے۔

پاک ترک اسکولز کے چیئرمین عالمگیر خان سمیت 3 اساتذہ نے تین دن میں ملک چھوڑنے اور وجہ بتائے بغیر ویزوں میں توسیع نہ دینے کا حکم عدالت عالیہ میں چیلنج کردیا، درخواست میں فیڈریشن آف پاکستان بذریعہ وزارت داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزاروں کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ 'وزارت داخلہ نے ترک اساتذہ کو وجہ بتائے بغیر ویزوں میں توسیع سے انکارکر دیا جبکہ 22 جون کو ویزہ میں توسیع کی درخواست دی گئی تھی جسے 11 نومبر کو وجہ بتائے بغیر مسترد کر دیا گیا'۔

مزید پڑھیں:پاک ترک اسکولز کے عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم

درخواست گزار نے مزید کہا کہ '14 نومبر کو وزارت داخلہ نے تین دن میں ملک چھوڑنے کا حکم بھی جاری کر دیا، اگر ترک اساتذہ 3 دنوں میں ملک چھوڑتے ہیں تو ملک بھر میں 26 پاک ترک اسکولوں میں 11 ہزار طالب علموں کا تعلیمی سیشن متاثر ہو گا اور 108 ترک اساتذہ کی واپسی سے ان کے خاندان کے 400 افراد بھی متاثر ہوں گے۔'

درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 'ان کے اپنے بچے بھی پاک ترک اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں جن کا سیشن مارچ 2017 میں اختتام پذیر ہو گا۔'

درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی کہ 3 دن میں وزارت داخلہ کی جانب سے ملک چھوڑنے کے حکم کو کالعدم قرار دیا جائے اور تعلیمی سیشن کے اختتام تک ترک اساتذہ کے ویزوں میں توسیع اور ملک میں قیام کی اجازت دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک ترک اسکولز غیر یقینی صورتحال سے دوچار

یاد رہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان کی پاکستان آمد کے موقع پر وزارت داخلہ نے پاک ترک اسکولز اور کالجز کے ترک عملے کو 20 نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔

وزارت داخلہ کے سینئر عہدے دار نے بتایا تھا کہ اس تعلیمی نیٹ ورک کے عملے کے ویزے منسوخ کردیئے گئے ہیں اور اتوار 13 نومبر کو انہیں خطوط بھی بھیجے گئے جس میں انہیں مطلع کیا گیا کہ ان کے پاس ملک چھوڑنے کے لیے صرف ایک ہفتے کا وقت ہے۔

عہدے دار نے بتایا تھا کہ 28 پاک ترک اسکولز و کالجز میں ترک عملے کی تعداد 108 ہے جبکہ ان کے اہل خانہ کی تعداد 400 کے قریب ہے۔

یہاں پڑھیں: 'پاک ترک اسکولز کے انتظامی عہدوں میں تبدیلی'

یاد رہے کہ رواں برس اگست میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اسلام آباد نے پاکستان کا دورہ کرنے والے ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاک ترک اسکولز کے معاملے پر غور کرے گا جسے ترکی نے امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن سے روابط کا الزام عائد کرکے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ پاک ترک اسکولز اور کالجز کے نیٹ ورک کا قیام 1995 میں اس غیر ملی این جی او کے تحت عمل میں آیا تھا جو ترکی میں رجسٹرڈ تھی۔

اسکولز اور کالجز کا یہ نیٹ ورک لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، کراچی، حیدرآباد، خیرپور، جامشورو اور کوئٹہ میں پھیلا ہوا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Sharminda Nov 16, 2016 03:33pm
This is what we call conflict of interest. Due to personal interests of Sharif family with Turk Gov, they don't care about future of students & teachers.
KHAN Nov 16, 2016 06:30pm
السلام علیکم: وزارت داخلہ کے بغیر کوئی وجہ , کسی ثبوت کے بغیر ملک کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنےوالے سب کے سب ترک اساتذہ کو ویزوں میں توسیع دینے سے انکار نے مشرف کے دور میں تمام اخلاقی ، سفارتی ، اور اسلامی روایات کی دھجیاں بکھیر کر افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام کی امریکا کو حوالگی کی یاد تازہ کردی ہے، جو امریکا کو مطلوب بھی نہ تھا، ان حکمرانوں پر خود کوئی افتاد پڑے تو عرب ممالک، یورپ اور امریکا سے منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں مگر اب صرف ذاتی تعلقات کو اہمیت دیتے ہوئے پاک ترک اسکول کے طلبا کا کوئی بھی خیال نہ رکھتے ہوئے ان کی بیدخلی کا حکم جاری کردیا ہے۔ واہ رے حکمرانوں تمہارے مفادات۔ خیرخواہ