صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس میں دھماکے کے نتیجے میں 10 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہوگئے۔

دھماکے کی نوعیت کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آئیں، ابتداء میں پنجاب حکومت نے دعویٰ کیا کہ دھماکا جنریٹر پھٹنے کے نتیجے میں ہوا تاہم پنجاب پولیس کے ترجمان نایاب حیدر سمیت دیگر ذرائع نے بتایا کہ یہ ایک بم دھماکا تھا۔

پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ترجمان نے بھی اسی دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'ابتدائی رپورٹ کے مطابق دھماکا بارودی مواد پھٹنے سے ہوا'۔

ایس ایس پی سی ٹی ڈی ڈاکٹر اقبال کے مطابق 'اس حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں کہ دھماکا آئی ای ڈی یا ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا'۔

انھوں نے مزید بتایا کہ 'یہ معاملہ بھی زیرغور ہے کہ پلازہ کو ٹارگٹ کیا گیا یا یہاں بارودی مواد تیار کیا گیا'۔

ایس ایس پی سی ٹی ڈی کے مطابق فرانزک رپورٹ آنے پر حقائق واضح ہو جائیں گے، جنھیں میڈیا کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں لاہور کے علاقے گلبرگ میں بھی ایک اور دھماکے کی اطلاع موصول ہوئی، تاہم وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے گلبرگ میں دھماکے کی تردید کردی۔


اب تک کی اطلاعات کے مطابق

  • لاہور کے علاقے ڈیفنس میں دھماکے کی اطلاع ملی
  • ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ دھماکا جنریٹر پھٹنے سے ہوا
  • پنجاب پولیس ترجمان نے تصدیق کی کہ یہ ایک بم دھماکا تھا
  • 10 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہوئے

ریسکیو ذرائع کے مطابق لاہور کے علاقے ڈیفنس زیڈ بلاک میں ایک زیر تعمیر عمارت میں دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔

جائے وقوع سے دھواں اٹھتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے— فوٹو/ بشکریہ سعد متین فیس بک
جائے وقوع سے دھواں اٹھتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے— فوٹو/ بشکریہ سعد متین فیس بک

ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکا جنریٹر پھٹنے کے نتیجے میں ہوا، تاہم پنجاب پولیس کے ترجمان نایاب حیدر نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'یہ بم دھماکا تھا'۔

جس مقام پر دھماکا ہوا، وہ لاہور کا ایک مصروف اور کمرشل علاقہ ہے جہاں کئی دفاتر اور کھانے پینے کے مراکز قائم ہیں۔

دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پولیس جائے وقوع پر پہنچی اور اردگرد کی دکانیں بند کروا کر علاقے کو سیل کردیا گیا، جبکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کا عملہ بھی طلب کرلیا گیا۔

دوسری جانب لاشوں اور زخمیوں کو جنرل ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں متعدد زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتائی گئی۔

دھماکا بہت شدید تھا، جنریٹر کا نہیں لگتا، رانا ثناء

صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ' ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکا جنریٹر کا تھا، لیکن چونکہ یہ بہت شدید تھا، اس لیے جنریٹر کا نہیں لگتا'۔

دھماکے کے بعد ریسکیو اہلکار فوراً جائے وقوع پر پہنچے— ڈان نیوز
دھماکے کے بعد ریسکیو اہلکار فوراً جائے وقوع پر پہنچے— ڈان نیوز

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا 'ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ زیر تعمیر عمارت میں کوئی کیمیکل موجود ہو، جس نے آگ پکڑ لی اور اس کے نتیجے میں دھماکا ہوا ہو'۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے شواہد اکٹھے کیے جارہے ہیں، جس کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے گا۔

رانا ثناء کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے فائنل کے لاہور میں انعقاد میں رکاوٹ ڈالنے کے امکان کو خارج از امکان قرار نہییں دیا جاسکتا۔

تاہم صوبائی وزیر قانون نے ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی۔

'دھماکے کی شدت بہت زیادہ تھی'

ریسکیو 1122 کے ایک اہلکار نے بتایا کہ انھیں دھماکے کی اطلاع صبح 11 بجے کے قریب ملی، جس کے بعد تقریباً 35 افراد کو ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا، جہاں متعدد کی حالت تشویش ناک بتائی گئی۔

انھوں نے بتایا کہ 'دھماکے کی نوعیت اور شدت بہت زیادہ تھی، عمارت کی ایک منزل نیچے گر گئی اور لوگ اس کے نیچے دب گئے'۔

علاقے میں واقع ایک بینک کے ملازم محمد خرم نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ ان کا آفس ایک 'خوف ناک' دھماکے سے لزر اٹھا۔

انھوں نے مزید بتایا، 'ہم فوراً بلڈنگ سے نکلے اور دیکھا کہ باہر پارک کی گئی موٹر سائیکلوں میں آگ لگی ہوئی ہے جبکہ اردگرد کی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ کر جابجا بکھرے ہوئے ہیں'۔

سرچ آپریشن کا آغاز

دھماکے سے کئی عمارتوں کے شییشے ٹوٹ گئے—۔ڈان نیوز
دھماکے سے کئی عمارتوں کے شییشے ٹوٹ گئے—۔ڈان نیوز

دھماکے کے بعد مذکورہ مارکیٹ کو سیل کرکے سیکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن کا آغاز کردیا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے واقعے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش کی جائے گی۔

ڈان نیوز کے مطابق قریبی اسکولوں کو بھی بند کردیا گیا اور والدین سے کہا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو گھر لے جائیں۔

دھماکے کی شدت بہت زیادہ تھی— ڈان نیوز
دھماکے کی شدت بہت زیادہ تھی— ڈان نیوز

لاہور میں حالیہ دھماکا ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب رواں ماہ پاکستان کے مختلف شہروں میں متعدد دھماکوں کے نتیجے میں اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔

ان واقعات کے بعد ملک میں سیکیورٹی انتہائی الرٹ ہے جبکہ گذشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں آپریشن 'رد الفساد' کے آغاز کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی کے سامنے خودکش دھماکا، 13 ہلاک

اس نئے آپریشن کا مقصد ملک بھر کو اسلحہ سے پاک کرنا اور بارودی مواد کو قبضے میں لینا ہے، جبکہ اس کا ایک مقصد ملک بھر میں دہشت گردی کا بلاامتیاز خاتمہ اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانا بھی ہے۔

دہشت گردی کی نئی لہر

  • رواں ماہ 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے دہشت گردوں نے خودکش حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس افسران سمیت 13 افراد ہلاک اور 85 زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ 'جماعت الاحرار' نے قبول کی تھی۔

  • 13 فروری کو ہی کوئٹہ میں سریاب روڈ میں واقع ایک پل پر نصب دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کمانڈر سمیت 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

  • 15 فروری کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری بھی’جماعت الاحرار’ نے قبول کی تھی۔

  • 15 فروری کو ہی پشاور میں ایک خود کش حملہ آور نے ججز کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

  • 16 فروری کو صوبہ سندھ کے شہر سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 80 سے زائد افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

  • خود کش دھماکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، جمعرات 16 فروری کو ہی بلوچستان کے علاقے آواران میں سڑک کنارے نصف دیسی ساختہ بم پھٹنے سے پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت 3 اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔

  • 21 فروری کو خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں ضلع کچہری پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور 15 سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ 3 خود کش حملہ آوروں کو بھی ہلاک کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں