اب وہ اس ہنگامے سے تنگ آگئے ہیں...

15 مارچ 2017
پروفیسر رابرٹ کیلی اور ان کی فیملی—فوٹو: اے پی
پروفیسر رابرٹ کیلی اور ان کی فیملی—فوٹو: اے پی

سوشل میڈیا چاہے تو کسی کو بھی چند گھنٹوں میں شہرت کے عروج پر پہنچا سکتا ہے، اس کی حالیہ مثال جنوبی کوریا کی یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ کیلی ہیں، جنہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کے تجزیے کے بجائے ان کے ننھے بچے انہیں وائرل کردیں گے۔

یہ دلچسپ واقعہ تجزیہ کار رابرٹ کیلی کے ساتھ اس وقت پیش آیا جب وہ ویب کیم کے ذریعے جنوبی کوریا کی صدر کو برطرف کیے جانے کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے کو براہ راست انٹرویو دینے میں مصروف تھے۔

لائیو انٹرویو کے دوران ہی پروفیسر رابرٹ کے دو ننھے بچوں نے ان کے انٹرویو میں خلل ڈال کر انہیں بظاہر پریشان مگر دراصل وائرل کردیا۔

یہی کافی نہیں تھا کہ ایک خاتون ہڑبڑاہٹ میں کمرے میں داخل ہوئیں جنہوں نے مشکل سے دونوں بچوں کو کمرے سے باہر نکالا۔

اس ساری صورتحال کے دوران روبرٹ کیلی شرمندہ ہوتے ہوئے میزبان سے کئی بار معذرت کرتے رہے۔

مزید پڑھیں: جب بچوں نے انٹرویو کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق راتوں رات عالمی انٹرنیٹ سلیبرٹی بن جانے والے پروفیسر رابرٹ کہتے ہیں کہ اب وہ اس ہنگامے سے تنگ آگئے ہیں۔

پروفیسر رابرٹ اور ان کی فیملی بوسان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے—فوٹو: اے پی
پروفیسر رابرٹ اور ان کی فیملی بوسان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے—فوٹو: اے پی

واضح رہے کہ انٹرنیٹ پر تیزی سے پھیلنے والے اس انٹرویو کو اب تک کروڑوں لوگ دیکھ کر اس پر تبصرہ کرچکے ہیں جبکہ دنیا بھر میں درجنوں خبریں، آرٹیکل اور مضامین بھی شائع ہوچکے ہیں۔

جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں پروفیسر رابرٹ کی یونیوسٹی کی جانب سے منعقد کی گئی ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ 'اس انٹرویو کے بعد سے وہ فون کالز اور میسجز کے ڈھیر تلے دب چکے ہیں، جبکہ اب انہوں نے مزید ویب سائٹس پر اپنے حوالے سے لگنے والی خبروں کو پڑھنا بھی ترک کردیا ہے'۔

امریکی خارجہ پالیسی کے استاد پرامید ہیں کہ کسی نہ کسی موقع پر لوگ انہیں ان کے کام سے بھی جانیں گے۔

لوگوں کی جانب سے پروفیسر رابرٹ کی اہلیہ کو ایشیائی ہونے کی وجہ سے بچوں کی آیا سمجھنے پر ان کا کہنا تھا کہ 'دنیا بھر میں بہت سارے خاندان کثیرالثقافتی ہیں اور مجھے امید ہے کہ ہماری ویڈیو دیکھنے کے بعد لوگوں کے نظریے میں تبدیلی آئے گی'۔

تبصرے (0) بند ہیں