سردارعبدالمجید دستی نے سندھ کے قائم مقام انسپکٹر جنرل (آئی جی) کا چارج سنبھالنے کے بعد سینٹرل پولیس آفس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے سلسلے میں لاڑکانہ میں سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کی سربراہی کی۔

عبدالمجید دستی کو 2 روز قبل صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی اللہ ڈنو خواجہ کی خدمات کو وفاق کے حوالے کرنے کے بعد قائم مقام آئی جی مقرر کیا گیا تھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق اے ڈی خواجہ کو بظاہر اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ پی پی پی قیادت، پولیس عہدیداروں کے تبادلے اور آئی جی کی جانب سے متعارف کی گئیں اہم اصلاحات سے 'ناخوش' تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اے ڈی خواجہ نے سی پی ایل سی اور فوج کے نمائندوں پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا تھا جس کے تحت 18 ہزار پولیس اہلکاروں کو تربیت دی گئی تھی۔

ساتھ ہی اے ڈی خواجہ نے 4 ہزار نئے بھرتی ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تربیت فوج کے تحت کرانے کا انتظام بھی کیا تھا جو تربیت مکمل کرچکے ہیں جبکہ مزید 6 ہزار جوان زیر تربیت ہیں اور 7 ہزار اہلکار تربیت کے منتظر ہیں۔

مزید برآں انھوں نے صوبے میں تھانہ کلچر کو ختم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے 'پولیس رپورٹنگ سینٹرز' کے منصوبے کا آغاز کیا تھا، جس کے تحت چند سینٹرز کراچی اور حیدرآباد میں بنائے گئے تھے، کراچی پولیس کو اسی مد میں 10 کروڑ اور حیدر آباد پولیس کو 6 کروڑ روپے دیئے گئے۔

کراچی میں مددگار 15 کی استعداد کو بہتر کرنے کے لیے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کو فعال کرنے کے لیے نجی افراد کے تعاون سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس میں پہلی مرتبہ آئی ٹی کیڈر کو متعارف کروایا گیا جو اپنے نوعیت کا منفرد منصوبہ تھا کیونکہ دیگر صوبوں کے محکمہ پولیس میں کیڈر کو متعارف نہیں کروایا گیا، اس منصوبے کے مطابق سندھ پولیس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے 2500 ماہرین کو تربیت دی جائے گی۔

اے ڈی خواجہ نے پولیس اہلکاروں کے لیے فلاحی اور انسپکٹرز اور ڈی ایس پی سے ایس پی سطح پر 'حساس بنیادوں پر' ترقی کے لیے بھی قدم اٹھایا تھا کیونکہ ان معاملات کو ماضی میں عام طور پر عدالت میں چیلنج کیا جاتا تھا، پولیس اہلکاروں کی طبی معاونت کے لیے 10 کروڑ کا ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کیا گیا تھا۔

ایک سینئرپولیس افسر کا کہنا تھا کہ چونکہ پی پی پی کی قیادت کی جانب سے اے ڈی خواجہ کو تقرر و تبادلے کی 'اجازت' نہیں دی گئی تھی اس لیے وہ اس میدان میں اصلاحات نہیں لاسکے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی کے ہٹانے سے 'کنفیوژن اور تنازع' بڑھ گیا ہے جیسا کہ میڈیا اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کی جانب سے اے ڈی خواجہ کو ہٹانے اور ان کے متبادل کے فیصلے کو قانون اور قاعدے کے مطابق تصور نہیں کر رہی۔

مزید پڑھیں:آئی جی سندھ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کا فیصلہ

ذرائع کے مطابق سندھ ہائی کورٹ پیر (3 اپریل) کو اے ڈی خواجہ کو 'جبری رخصت' پر بھیجنے کے کیس کی سماعت کرے گا کیونکہ عدالت پہلے ہی حکم جاری کر چکی ہے کہ حکومت اے ڈی خواجہ کو نہیں ہٹا سکتی۔

خیال رہے کہ تین ماہ قبل انھیں 15 دن کی 'جبری رخصت' پر بھیج دیا گیا تھا۔

دوسری جانب صوبائی حکومت کے ذرائع کا اصرار ہے کہ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے اور قائم مقام آئی جی کو تعینات کرنے کا معاملہ، خصوصاً سپریم کورٹ کی جانب سے مشہور انیتا تراب علی کیس اور فرید الدین کیس کے حوالے سے جاری کیے گئے احکامات کی روشنی میں قانون اور ضابطے کے مطابق ہے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انیتا تراب علی کے کیس میں ایک افسر کو کسی بھی پوسٹ پر کم ازکم ایک سال کا دورانیہ دینا بھی شامل تھا جو اے ڈی خواجہ پہلے ہی مکمل کرچکے ہیں، جبکہ اے ڈی خواجہ کو اون پے اسکیل (او پی ایس) کی بنیاد پر تعینات کیا گیا تھا کیونکہ وہ 21 گریڈ کے افسر ہیں جبکہ آئی جی کی پوسٹ 22 گریڈ کی تھی، دوسری جانب عبدالمجید 21 گریڈ کے سینئر افسر ہیں، لہذا صوبائی حکومت نے فرید الدین کیس کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا جہاں متبادل کی صورت میں 'سینیئر ترین افسر' کو عہدہ دینے کی سپریم کورٹ کی ہدایت موجود تھی۔

سرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ قائم مقام آئی جی نے سی پی او میں پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے روایت کے مطابق ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی کے لیے متعلقہ عہدیداروں کو ہدایات دیں، انھوں نے عہدیداروں کو خبردار کیا کہ اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔

قائم مقام آئی جی عبدالمجید دستی کا کہنا تھا کہ انھوں نے حکومت کے نوٹی فیکیشن کے مطابق ذمہ داری لی ہے اور نیشنل ایکش پلان پر بلاتعطل عمل درآمد جاری رکھا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی کو مزید بہتر کرنے کے لیے رینجرز اور وفاقی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کو بڑھایا جائے گا۔

یہ خبر 3 اپریل 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں