لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

ملکی سیاست کے منظرنامے کو ممکنہ طور پر تبدیل کر دینے والے پانامہ کیس کے فیصلے کے لیے ایک طویل انتظار کرنا پڑا ہے۔ عدالت کو کیس کی سماعت کا سلسلہ ختم کیے ہوئے اور سر جوڑ کر بیٹھے 6 ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔

مختصر فیصلہ نہیں سنایا گیا اور جب پانچ نہایت خود مختار ذہنیت کے مالک جج صاحبان سنجیدہ نوعیت کی سیاسی تقسیم والے اس انتہائی پیچیدہ کیس کا تمام تر قانونی پہلوؤں سے جائزہ لے رہے ہوں تو حتمی فیصلے پر پہنچنے میں وقت تو ضرور لگنا ہے۔ لگتا ہے کہ حتمی فیصلے سننے کو بے قرار قوم کو انتظار کرنا پڑے گا۔

نہ صرف وزیر اعظم نواز شریف کا سیاسی مقدر فی الوقت معلق ہے، بلکہ تھوڑے عرصے میں سنایا جانے والا فیصلہ پاکستانی سیاست کا مستقبل بھی متعین کرے گا۔ جس بات نے شش و پنج میں ڈال دیا ہے، وہ دوران سماعت بینچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ کے ریمارکس ہیں کہ اس کیس کا فیصلہ اگلی دو دہائیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ بلاشبہ، یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہوگا، مگر کسی کوپختہ طور پر پتہ نہیں کہ فیصلہ آخر کس نوعیت کا ہوگا۔

یہ صورتحال جج صاحبان کے لیے بھی ایک امتحان سے کم معلوم نہیں ہوتی۔ کیس میں شامل قانونی پہلو ہی نہیں، بلکہ اس سے جڑی سیاست بھی اسے کافی زیادہ پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ اگرچہ تمام سیاسی جماعتوں نے اعلیٰ عدلیہ پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے، مگر ملک کے سب سے زیادہ طاقتور سیاسی خاندان پر اثر انداز ہونے والے غیر معمولی کیس میں فریقین کی جانب سے امیدیں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ ماضی میں نظریہ ضرورت اور سیاسی جانبداری کی بناء پر سنائے گئے فیصلوں کے سائے بھی عدلیہ پر منڈلاتے ہیں۔ بلاشبہ دباؤ بہت زیادہ ہے۔

وزیر اعظم کے بچوں کی آف شور کمپنیوں اور مہنگی ریئل اسٹیٹ کے بارے میں پانامہ لیکس، جو ملک کے اندر سیاسی طوفانی بھنور کا باعث بنیں، کو ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی جانب سے دیے گئے متنازع اور متضاد بیانات کے سلسلے نے سیاسی ہنگامے میں اضافہ کیا اور لیکس کے بارے میں ایک غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے پراکسایا۔

قطری شہزادے کی جانب سے شریف خاندان کے ساتھ خاندانی بزنس کے تعلقات کا انکشاف کرنے والے مشکوک خط نے پورے معاملے کو ہی ایک سیاسی کامیڈی میں تبدیل کر دیا۔ عدالت حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف مختلف درخواستیں جمع کرنے پر مجبور نظر آئی۔ ایک مزید سادہ وضاحت یہ ہے کہ تحقیقاتی اداروں کی ناکامی کی وجہ سے ملک کی اعلٰی عدلیہ کے پاس معاملے میں مداخلت کرنے کے سوائے اور کوئی آپشن نہیں بچا۔

مگر لوگوں کا خیال ہے کہ حزب اختلاف کا سیاسی دباؤ ہی تھا جو بالآخر عدالت کی توجہ حاصل کرنے کا باعث بنا۔ بلا تعجب، کیس ایک سیاسی جنگ کا مرکز بن گیا۔

جہاں جج صاحبان نے عدالت میں دلائل سنے، وہاں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے یہ کیس عدالت کے باہر بھی لڑا اور ہر شام ٹی وی شوز پر ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے اور کیس کی سماعت مکمل ہوئے بغیر اپنی اپنی فتح کا اعلان کر دیتے۔

کسی بھی دن متوقع فیصلے کے ساتھ لگتا ہے کہ معاملات مزید شدت اور انتہائی ناخوشگواری کی جانب گامزن ہیں۔

بلاشبہ، حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی کی سیاست داؤ پر لگی ہوئی ہے، خاص طور پر پی ٹی آئی، جو پانامہ پٹیشن جمع کرونے والی مرکزی جماعت ہے۔ مگر ناسازگار فیصلے کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو اٹھانا پڑے گا۔ یہ اسکینڈل پہلے ہی ان کے لیے کافی زیادہ سیاسی نقصان کا باعث بن چکا ہے اور اگر عدالت انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے دستبردار ہونے کی بے عزتی سے بچا بھی لے تو بھی اس نقصان کا خمیازہ ادا کرنا نہایت ہی دشوار ہے۔ بلاشبہ، ہمارے سامنے ایک مثال بھی ہے جس میں ایک وزیراعظم کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا تھا، مگر چند ہی لوگ مانتے ہیں کہ یہ نواز شریف کچھ ایسا ہو سکتا ہے۔ شاید حکومتی فریق میں اعتماد کی وجہ بھی یہی ہے۔

مگر چند کا کہنا ہے کہ موجودہ عدالت ماضی کی عدالتوں سے کافی مختلف ہے، یہ کافی حد تک آزاد ہے اور طاقتور ترین حکومت کے دباؤ کو بھی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سماعت کے دوران جج صاحبان کے ری مارکس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے۔

ظاہر ہے کہ جج صاحبان کو کیس کا فیصلہ سیاسی تناظر میں نہیں بلکہ اس کے قانونی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا ہے۔ زیادہ تر قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شریف خاندان آف شور کمپنیوں کے منی ٹریل اور لندن میں جائداد کی اپنی ملکیت کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مگر کیا وزیر اعظم کو غلط کام کرنے پر مجرم قرار دینے کے لیے اتنا کافی ہے؟ اس کا فیصلہ جج صاحبان کو کرنا ہے۔ فیصلہ چاہے جو بھی ہو، مگر اس سے اٹھنے والے سیاسی بھونچال کی پیش گوئی کرنا مشکل نہیں۔

وزیر اعظم کے لیے فیصلے کا وقت اس سے بدتر نہیں ہو سکتا، کہ جب وہ بہتر ہوتے سول فوجی تعلقات کے ساتھ سیاسی طور پر زیادہ مستحکم نظر آئے اور جب حزب اختلاف کی جانب سے بھی کوئی حقیقی خطرہ لاحق نہیں۔ ان کے حامی عنقریب ہونے والے انتخابات کے بارے میں پراعتماد دکھائی دیے۔ مگر، فیصلہ چاہے جو بھی اب ان کے لیے انتخابات شاید اتنے آسان نہ ہوں۔

اگر وزیر اعظم نواز شریف کو ذاتی طور پر مجرم نہیں بھی ٹھہرایا گیا تو بھی ان کے لیے منظر نامہ کچھ بہتر محسوس نہیں ہوتا۔ ابہام سے بھرے بیانات کے ساتھ پورے شریف خاندان کو کلین چٹ دینا عدالتوں کے لیے مشکل ہوگا۔ ایک بات تو یقینی ہے— نواز شریف پانامہ اسکینڈل سے بغیر کسی نقصان کے باہر نہیں نکل سکتے۔ اگر ان کے حق میں فیصلہ نہ آئے تو ان کے پاس کون سے آپشنز بچتے ہیں؟

سب سے مضبوط خیال تو یہی ہے کہ وہ قومی اسمبلی تحلیل کر دیں گے اور جلد انتخابات منعقد کر دیں گے۔ مگر یہ کافی رسکی ہوگا۔ کوئی نہیں جانتا کہ آیا تمام صوبے پیروی کریں گے یا نہیں۔ ایسی صورتحال ایک زبردست سیاسی انتشار پیدا کر سکتی ہے۔ شاید یہ سچ ہو کہ پارٹی اب بھی نواز شریف کے گڑھ پنجاب میں گہرائی کے ساتھ اپنی جڑیں پیوست کی ہوئی ہیں۔

مگر ایک ناخوشگوار عدالتی فیصلہ انتخابی صورتحال کو زبردست حد تک تبدیل کر سکتا ہے۔ ایک بڑا سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آیا پارٹی پنجاب میں اپنی ناقابل تسخیر حیثیت اور دیگر صوبوں پر اپنا اثر رسوخ قائم رکھ سکتی ہے یا نہیں۔ بہرحال اس کے لیےانہیں عام انتخابات کا انتظارکرنا پڑ سکتا ہے جو صرف اب ایک سال دور ہیں۔

اب سارا کھیل وقت کا ہے کہ کب جج صاحبان پانامہ اسکینڈل پر اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ یہ فیصلہ بلاشبہ داؤ پر لگے نواز شریف کے سیاسی مستقبل کے ساتھ کئی دہائیوں تک یاد رکھا جائے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

الیاس انصاری Apr 13, 2017 09:46pm
فیصلہ تو بلا شبہ سپریم کورٹ کے ججوں کو ہی کرنا ہے اور فی الحال ججوں کا ذہن پڑھنا بھی ممکن نہیں تاہم کیس کی سماعت کے دوران یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ نواز شریف صاحب نے قومی اسمبلی کے سامنے جھوٹ بولا ہے - یہ وہ حقیقت ہے جسے نظر انداز کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو