نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد شہادت کیس میں ہندوستان کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنماؤں ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اما بھارتی سمیت دیگر کے خلاف مجرمانہ سازش کے مقدمات بحال کردیئے۔

خیال رہے کہ ایودھیا میں واقع 16ویں صدی کی تاریخی بابری مسجد کو 25 سال قبل شہید کردیا گیا تھا۔

بھارتی ویب سائٹ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے ان افراد کے خلاف مجرمانہ سازش کے مقدمات بحال کیے۔

کیس کا ٹرائل دو سال میں مکمل کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کیس کو روزانہ بنیادوں پر سماعت کے لیے لکھنؤ کی عدالت منتقل کردیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ اور سینئر پارٹی رہنما کلیان سنگھ گورنر ہونے کی وجہ سے کیس کے ٹرائل سے محفوظ ہیں تاہم عہدے کے ختم ہونے کے بعد ان کے خلاف بھی مقدمات بحال ہوجائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ مندرکی تعمیر،مودی کیلئےدرد سر

واضح رہے کہ لکھنؤ کی عدالت کی جانب سے تکنیکی بنیادوں پر کیس کو ختم کیے جانے کے 16 سال بعد سپریم کورٹ نے ان افراد کے خلاف مقدمات کو بحال کیا ہے۔

گذشتہ ماہ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جے ایس کھیہر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کہا تھا کہ ’تمام جماعتوں کو رام مندر اور بابری مسجد کا تنازع مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘۔

یاد رہے کہ رام کی جنم بھوم قرار دیتے ہوئے بابری مسجد کو 1992 میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسمار کر دیا گیا تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی تھی۔

تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992 کو ہزاروں ہندو انتہاپسندوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے اعلیٰ سطح کے رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔

جس کے بعد ہندوستان کے کئی حصوں میں فسادات بھڑک اٹھے تھے جبکہ مسجد کی شہادت کے بعد احتجاج کرنے پر سیکڑوں مسلمانوں کو بھی ہلاک کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد کیس:بھارتی عدالت کا تنازع مذاکرات سے حل کرنے کا مشورہ

خیال رہے کہ سی بی آئی کا 13 رہنماؤں کے خلاف کیس مئی 2001 میں اُس وقت ختم ہوگیا تھا جب لکھنؤ کی عدالت نے ان افراد کے خلاف مجرمانہ الزامات کو خارج کردیا تھا۔

جس کے بعد سی بی آئی نے الہٰ باد ہائیکورٹ کا رخ کیا، جہاں لکھنؤ عدالت کے فیصلے کو معطل کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اس تنازع کے حوالے سے الہٰ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد فریقین نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھی، جو کئی سال سے زیر سماعت تھیں۔

الہٰ آباد ہائی کورٹ نے اپنے 2010 کے فیصلے میں متنازع علاقے کی 3 طرح سے ڈویژن کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے قرار دیا تھا کہ دو ججز نے متنازع علاقے کی 2.77 ایکڑ زمین مسلمانوں، ہندوؤں اور نِرموہی اکھاڑا (ہندو گروپ) کے درمیان برابر تقسیم کی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں