اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں کے حوالے سے تحقیقات کیلئے ممکنہ طور پر تشکیل دی جانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) ٹیکس معاملات میں مشترکہ انتظامی اسسٹنس پر کثیر جہتی کنونشن کے ذریعے دیگر ممالک سے ستمبر 2018 تک معلومات لینے سے قاصر ہے۔

پاکستان اپریل 2017 میں 109 ممالک پر مشتمل معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کا باقاعدہ حصہ بنا تھا، اس تنظیم کے قیام کا مقصد رکن ممالک کے درمیان ٹیکس اور مالی معاملات کی معلومات شیئر کرنا ہے، اس تنظیم کا حصہ بننے کے بعد آئندہ سال سے پاکستان کو اسے اثاثوں کی تفصیلات خود بہ خود ملنا شروع ہوجائیں گی۔

اس کثیر جہتی کنونشن کے تحت پاکستان کو اپنے شہریوں کے بیرون ملک فنڈز کی تفصیلات موصول ہونا شروع ہوجائیں گی اور پاکستان کو بھی تنظیم کے رکن ممالک کے شہریوں کے بینک اکاؤنٹس کی ایسی ہی معلومات جولائی 2018 سے دینا ہوں گی۔

اس حوالے سے غیر رہائشی افراد کی تفصیلات جولائی 2017 سے جون 2018 کے درمیان شیئر کی جائیں گی اور ان بینک اکاؤنٹس کی معلومات بھی دی جائیں گی جو اس عرصے سے قبل کھولے گئے۔

اس کے بدلے میں پاکستان بھی اس عرصے میں پاکستانیوں کے اثاثوں کی معلومات مذکورہ 109 ممالک سے حاصل کرسکے گا۔

خیال رہے کہ اس عمل کا آغاز پاکستان میں بہت دیر سے ہورہا ہے کیونکہ وہ او ای سی ڈی کا رکن بننے والا آخری ملک تھا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز اپنے ایک فیصلے میں جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا تھا جو 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی اور 13 سوالوں کے جواب تلاش کرے گی، جن کی تحقیقات ہونی چاہیے اور ان کے جواب تلاش کیے جانے چاہیے۔

یہ بھی یاد رہے کہ پاناما پیپرز اور باہاماس لیکس میں 444 آف شور کمپنیوں کے مالکان، جن میں وزیراعظم کے بیٹے بھی شامل ہیں، کے انکشاف کے بعد ستمبر 2016 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے باقاعدہ طور پر اس لیکس کی تفتیش کا آغاز کردیا تھا۔

ایک افسر نے ڈان کو بتایا کہ اگر ضرورت محسوس کی گئی تو جے آئی ٹی بیرون ملک میں موجود متبادل مقامی اور ذاتی ذرائع سے کیس کی تحقیقات کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم اس وقت تک جے آئی ٹی وزیراعظم اور ان کے بیٹے کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات پر ہی انحصار کرے گی۔

لیکن پاکستان کے پاس دنیا کے 9 ایسے مقامات، جو ٹیکس بچانے کیلئے جنت سمجھے جاتے ہیں، سے ایسا کوئی دو طرفہ معاہدہ نہیں ہے کہ ان سے ڈبل محصولات کے ثبوت حاصل کیے جاسکیں، یا یہ معاہدے ان ممالک کو ایسی معلومات کی فراہمی کا پابند کرسکیں۔

ایف بی آر کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق 444 افراد کے نام لیکس میں موجود ہیں جنھوں نے ان دنیا کے 9 مقامات، برطانوی ورجن جزائر (271)، باہاماس (25)، پاناما (84)، سے شیلز (44)، نیو (10)، ساموا (4)، ماریشس (3)، انگویلا (2)، جرسی (ایک) میں کمپنیوں کے مالکان ہیں۔

خیال رہے کہ ان 9 میں سے دو علاقے باہاماس اور نیو، او ای سی ڈی کنویشن کا حصہ نہیں ہیں جبکہ دیگر 7 بلا واسطہ اور بل واسطہ اس کنویشن کے دائرے میں آتے ہیں۔

ان میں سے 3 علاقے براہ راست برطانیہ کے کنٹرول میں ہیں، جن میں ورجن جزائر، انگویلا اور جرسی شامل ہیں، ان 444 افراد میں سے 274 نے ان تین مقامات پر کمپنیاں قائم کررکھی ہیں۔

مارچ 2014 میں برطانیہ نے او ای سی ڈی کا دائر کار ان تینوں مقامات تک بڑھا دیا تھا۔

واضح رہے کہ جو کمپنیاں وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کی ملکیت میں ہیں وہ بیشتر برطانوی ورجن جزائر میں قائم ہیں۔

ان 9 مقامات سے آف شور کمپنیوں کی معلومات کیلئے ایف بی آر کو وزارت خارجہ کے ذریعے رسائی حاصل کرنا ہوگی۔

ایک عہدیدار نے ڈان کو یہ تصدیق کی کہ ان تمام 9 مقامات سے معلومات حاصل کرنے کیلئے 18 اکتوبر 2016 کو ایک خط لکھا جاچکا ہے، جس میں ان کے ریونیو حکام سے ضروری معلومات اور دستاویزاتی ثبوت مانگے گئے تھے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ 17 فروری 2017 کو ایف بی آر نے اس معاملے پر وزارت خارجہ کو ایک یاد دہانی بھی کراوئی تھی، 'ہمیں ساموا سے ایک جواب بھی آیا، جنھوں نے پاکستان کے ساتھ ایسی کوئی بھی معلومات شیئر کرنے سے انکار کردیا'، عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ساموا کا موقف تھا کہ پاکستان اور ان کے درمیان مشترکہ ڈبل ٹیکسیشن کا معاہدہ موجود نہیں ہے۔

عہدیدار نے بتایا کہ اس وقت سے ایف بی آر نے ساموا سے مذکورہ معاہدے کیلئے کام کا آغاز کردیا ہے،'ہم دیگر علاقوں سے بھی دو طرفہ معاہدوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں'۔

ایف بی آر کے انٹیلی جنس ڈائرکٹریٹ کے مطابق بورڈ پاناما پیپرز میں نشاندہی کی جانے والی کمپنیوں کے مالکان کو 344 نوٹسز جاری کرچکی ہے۔

ان کے ذریعے کمپنیوں کی ملکیت، ان مالی تفصیلات اور دیگر ٹیکس معاملات کی معلومات طلب کی گئی تھیں۔

ایف بی آر ڈائریکٹریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن (ان لینڈ ریونیو) کو 250 افراد کی جانب سے جواب موصول ہوئے جن میں سے 72 افراد نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کی تصدیق کی۔

عہدیدار کے مطابق 12 افراد کی موت کی وجہ سے ان کی بیواؤں نے جواب دیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ 55 افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ پاناما پیپرز میں نشاندہی کی جانے والی آف شور کمپنیوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس حوالے سے 9 افراد نے اپنے جواب میں کہا کہ وہ پاکستانی حکام کی حدود میں نہیں آتے کیونکہ پاکستان میں مقیم نہیں ہیں۔

اس حوالے سے 72 کیسز میں مختلف وجوہات کی وجہ سے تحقیقات خارج کرنا پڑیں جبکہ 84 کیسز میں مذکورہ افراد کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے نوٹسز جاری نہ کیے جاسکے۔

ریونیو عہدیدار کے مطابق پاناما پیپز میں 155 افراد 600 کمپنیوں کے ڈائریکٹر بتائے گئے تھے، ' ان میں سے بیشتر نے محصولات ادا نہیں کیے'۔

یہ رپورٹ 23 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں