اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت سے ڈومیسٹک چائلڈ لیبر (کم سن بچوں سے لی جانے والی مشقت) کے خاتمے کا مجوزہ بل طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سر براہی میں تین رکنی بینچ نے طیبہ تشدد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ بچوں سے جبری مشقت کروانا معاشرتی ناسور ہے اور حکومت ڈومیسٹک چائلڈ لیبر کے خاتمے کا مجوزہ بل پیش کرے۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ حکومت بچوں کے تحفظ کا بل تیار کرچکی ہے جو میں عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ وہ یہ بل تمام فریقین کو دکھائیں اور اس بل پر فریقین کی رائے لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف نے عدالت کو بتایا کہ طیبہ تشدد کیس کا چالان ماتحت عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے، کیس ہائی کورٹ میں ہے اور وہیں اس کی سماعت ہوگی۔

ایڈووکیٹ جنرل کا مزید کہنا تھا کہ ملزمان کو 27 اپریل کے لیے طلبی کے نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: جج، اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا، اس معاملے پر عدالت نے اُس وقت از خود نوٹس لیا جب تشدد کا شکار ہونے والی طیبہ کے والدین 'سمجھوتہ' کرچکے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاشرتی ناسور کے خاتمے کے لیے ملک مں قانون سازی کی ضرورت ہے جس پر حکومتی وکیل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اس ناسور کے خاتمے کا بل تیار کر چکی ہے اور اس پر سول سوسائٹی سے تجاویز لے کر حکومت کو آگاہ کیا جائے گا۔

اس موقع پر سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ نے عدالت کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ 'غربت کے نام پر بچوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اگر بچوں کی مفت تعلیم کی آئینی شق پر عمل کیا جائے تو یہ ناسور ختم ہوجائے گا'۔

عدالت نے حکومتی وکیل کو ہدایت دی کہ وہ عدالتی وقفہ کے بعد حکومت کی مجوزہ قانون سازی کا بل عدالت کے سامنے پیش کریں۔

مزید پڑھیں: طیبہ پر تشدد کرکے جرم کا ارتکاب کیا گیا، چیف جسٹس

چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکومتی وکیل سے ڈومیسٹک ورکرز ایمپلائمنٹ بل 2013 کے حوالے سے بھی استفسار کیا جس کے بعد کیس کی آئندہ سماعت اگلے ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

طیبہ تشدد کیس — کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس پڑوسیوں کی 'سازش' ہے، اہلیہ جج

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے بھی مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کم سن ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا۔

دوسری جانب تشدد کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے سیشن جج اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ چند پڑوسیوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف 'سازش' کی، ملزم جوڑے کے مطابق انہوں نے والدین کی غربت کو دیکھتے ہوئے بچی کو انسانی ہمدردی کی بناء پر اپنے گھر میں رکھا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں