ایک طرف اسلام آباد پولیس کی جانب سے کم سن ملازمہ طیبہ پر تشدد کی تفتیش جاری ہے، وہیں دوسری جانب بچی کے والدین کے ساتھ ہونے والے 'راضی نامے' کے بعد ملزم جج اور ان کی اہلیہ کے ابتدائی بیانات میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے ملازمہ کو اپنے گھر پر رکھنے کے لیے 42 ہزار روپے پیشگی معاوضہ ادا کیا تھا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج (اے ڈی ایس جے) خرم علی خان اور ان کی اہلیہ نے اپنے بیانات 3 جنوری کو ریکارڈ کرائے تھے، اسی روز جج راجا آصف محمود اور جج عطاء ربانی نے خرم علی خان کی اہلیہ کی قبل از گرفتاری ضمانت اور ملازمہ طیبہ کی اس کے والدین کو حوالگی کی تصدیق کی تھی۔

جج کی اہلیہ نے اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ طیبہ گھر کے سرونٹ کوارٹر میں مقیم تھی۔

تاہم سپریم کورٹ کے سامنے ملازمہ طیبہ کے والد محمد عظیم نے گواہی دی تھی کہ اپنی بیٹی کو 14 اگست 2014 کو خاتون کے حوالے کرنے پر انھیں 18 ہزار روپے ادا کیے گئے تھے اور ماہانہ 3 ہزار روپے دینے کا بھی کہا گیا تھا۔

دوسری جانب تشدد کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے سیشن جج اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ چند پڑوسیوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف 'سازش' کی ہے، ملزم جوڑے کے مطابق انہوں نے والدین کی غربت کو دیکھتے ہوئے بچی کو انسانی ہمدردی کی بناء پر اپنے گھر میں رکھا تھا۔

اپنے ابتدائی بیان میں جج اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا وہ 7 سال کی عمر سے طیبہ کے سرپرست ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمہ پر تشدد: سیشن کورٹ میں بے ضابطہ کارروائی

واضح رہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج اور ان کی اہلیہ کو جھاڑو گم ہوجانے پر طیبہ کے ہاتھ جلانے، چمچ سے مارنے، اسٹور روم میں بند کرنے اور اس پر تشدد کے الزامات پر حراست میں لیا گیا تھا۔

27 دسمبر کو طیبہ کی تشدد زدہ تصویر سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد ملزم جج خرم کا کہنا تھا کہ وہ اسی روز اپنے گاؤں سے واپس لوٹے اور اہلیہ نے انہیں بتایا کہ طیبہ پڑوس کے گھر میں موجود ہے اور وہاں سے آنے سے انکار کررہی ہے۔

جس کے بعد ملازمہ کی گمشدگی کی اطلاع آئی 9 پولیس اسٹیشن کو دی گئی۔

29 دسمبر کو جج کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ بچی ان کے گھر واپس آئی اور انہوں نے اسی روز اسے ایس ایچ او خالد اعوان کے حوالے کردیا جہاں سے طبی معائنے کے لیے طیبہ کو دارالامان لے جایا گیا۔

دوسری جانب جج کی اہلیہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ طیبہ کو انہوں نے اپنے بیٹے راجا محمد علی خان کی دیکھ بھال کے لیے رکھا تھا اور طیبہ کو لانے والی خاتون کو انہوں نے رقم بھی ادا کی تھی۔

ملزم جج اور طیبہ کے والدین کے درمیان ہونے والے 'راضی نامے' کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے بچی پر تشدد کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے ملازمہ پر 'تشدد' کا از خود نوٹس لے لیا

راجا ظہور حسن نے خود کو بچی کے والدین کا وکیل ظاہر کیا تھا جو انہیں فیصل آباد سے اسلام آباد لے کر آیا تاکہ یہ راضی نامہ کیا جاسکے، راجا ظہور حسن نامی شخص نے بچی کے والدین سے دستاویزات پر انگوٹھوں کے نشان لگوائے اور عدالت کی جانب سے نوٹس لیے جانے تک انہیں مبینہ طور پر کسی جگہ پر ٹھہرایا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے 5 اور 6 جنوری کو پولیس کو حکم جاری کیا گیا کہ وہ بچی کو عدالت میں پیش کریں مگر ملازمہ اُس وقت تک لاپتہ ہوچکی تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے پولیس کو سختی سے دی جانے والی ہدایات کے بعد پولیس نے متعدد افراد کو حراست میں لیا جن میں وکیل راجا ظہور حسن بھی شامل تھے تاہم بچی کی بازیابی کے بعد وکیل کو رہا کردیا گیا۔

ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ راضی نامے میں سب سے اہم کردار وکیل راجا ظہور حسن نے ادا کیا۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج عطاء ربانی نے جلد بازی میں بچی کو اس کے والدین کے حوالے کردیا تھا۔

سپریم کورٹ میں اس کیس کی دوبارہ سماعت بدھ (18 جنوری) کو ہوگی۔


یہ خبر 17 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں