سکھر: قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ڈان اخبار کی خبر کے معاملے پر آئی ایس پی آر کی جانب سے کی جانے والی ٹوئٹ کا مطلب رپورٹ سے اتفاق نہ کرنا ہے۔

سکھر میں پریس کانفرنس کرتے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ٹوئٹ سے بات ثابت ہوتی ہے کہ فوج نے رپورٹ کو مسترد کردیا اور بطور اپوزیشن لیڈر و پارٹی رہنما وہ بھی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔

سید خورشید شاہ نے وزیر داخلہ سے فوری طور پر استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی ٹوئٹ ہی نہیں کیا، انہیں نہیں پتہ کہ ٹوئٹ آج کے دور میں رابطے کا تیز ترین ذریعہ ہے اور یہ عمل غلط نہیں۔

خیال رہے کہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے ڈان میں شائع ہونے والی خبر کی تحقیقات سے متعلق وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔

وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے دستخط سے جاری ہونے والے اعلامیے میں شائع ہونے والی خبر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔

وزیر اعظم ہاؤس کے اعلامیے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ ’رپورٹ منظر عام پر آنے سے پہلے ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ رپورٹ پر اتفاق نہیں ہوسکا، اس کا مطلب یہ تھا کہ حکومت اتفاق کرنا چاہتی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیں: ڈان کی خبر کی تحقیقات: طارق فاطمی عہدے سے برطرف

انہوں نے کہا کہ ’خبر کا شائع ہونا اہم معاملہ تھا، نواز شریف کی موجودگی میں وزیر اعظم ہاؤس میں ریاست کے خلاف باتیں ہوئیں، جو افشاں ہوئیں یا افشاں کرائی گئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’خبر لیک ہونے کے معاملے پر نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ عوام نے بھی احتجاج کیا، جس کے بعد اس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنایا گیا۔‘

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ’عدالتی کمیشن جس ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بنایا گیا، اس سے متعلق لاہور کے تمام وکلاء سمیت دیگر افراد نے بھی اعتراض کیا، کیوںکہ جج سے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ وفاقی حکمراں جماعت کے تنخواہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’چوہدری نثار کہتے ہیں کہ ڈان خبر پر تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آئی، اگر واقعی رپورٹ سامنے نہیں آئی تو وزیر اعظم ہاؤس نے ایکشن کس بات کا لیا۔‘

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ’یہ بات کسی سے چھپی نہیں کہ خبر کو لیک کروانے کے معاملے پر کس شخص نے کس کے ساتھ کتنی بار رابطے کیے، اس حوالے سے پہلے ہی باتیں آچکی تھیں۔‘

مزید پڑھیں: ڈان خبر کی تحقیقات:’میڈیا نے نان ایشو کو ایشو بنادیا‘

ان کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف کے ہوتے ہوئے ڈان خبر تحقیقات کی طرح پاناما لیکس پر بھی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) اور عدالتی کمیشن کی رپورٹ صحیح نہیں آئے گی۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’دوسروں کی ماؤں بہنوں کو گھر میں بیٹھنے کا مشورہ دینے والے وزیر اعظم کو سب سے پہلے اپنی بیٹی مریم نواز کو گھر میں بٹھا دینا چاہیئے۔‘

نواز شریف کے بھارت میں کاروبار کے حوالے سے خورشید شاہ نے کہا کہ ’پہلے بھی اس کا چرچا تھا اب واضح ہوگیا، جبکہ بھارتی صنعت کار سے ملاقات وزیر اعظم کی فنانشل ڈپلومیسی کو ظاہر کرتی ہے۔‘

’ڈان لیکس پاک فوج کو دانستہ بدنام کرنے کی کوشش‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی ٹوئٹ میں ڈان کی خبر کی تحقیقاتی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈان لیکس پاک فوج کو دانستہ طور پر بدنام کرنے کی کوشش تھی، حکومت فوری طور پر معاملے کی مکمل تحقیقاتی رپورٹ عوام کے سامنے لائے۔‘

واضح رہے کہ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے معاملے میں تحقیقات کے بعد 29 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا، جبکہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی خان کے خلاف بھی ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز 1973 کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں