لیجنڈری ستار نواز استاد رئیس خان 77 سال کی عمر میں ہفتہ کو چل بسے۔

انہوں نے پسماندگان میں اہلیہ (معروف گلوکارہ) بلقیس خانم اور چار بیٹوں کو چھوڑا ہے۔

استاد رئیس کی پیدائش 1939 میں بھارتی شہر اندور میں ہوئی اور ان کا تعلق کلاسیکل موسیقی کے معروف میواتی گھرانے سے تھا۔

عظیم ستار نواز استاد ولایت خان نے ان کے انکل تھے جبکہ استاد رئیس خان نے ستار بجانے کی مشق بچپن میں شروع کردی تھی۔

ایک روایت کے مطابق ان کے والد نے انہیں اس وقت ستار کا تحفہ دیا جب وہ بشمکل تین سال کے تھے۔

گلوکاری کے میدان میں بھی وہ انتہائی بہترین تھے اور اکثر مختلف راگوں کے امتزاج پر مبنی کلام گاتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں : کسی کے جانے سے کچھ نہیں ہوتا

برصغیر کی تقسیم کے بعد وہ بھارت میں ہی مقیم رہے جہاں انہوں نے لیجنڈ شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان سے اشتراک کرکے اسٹیج پر اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے فلمی موسیقاروں کے لیے بھی ستار نوازی کا مظاہرہ کیا خاص طور پر موسیقار مدن موہن کے ساتھ ان کے کئی معروف گانے جیسے فلم میرا سایہ کا 'نینوں میں بدرا چاہئے' یا دل کی راہیں کا ' رسم الفت کو نبھائیں' وغیرہ ہیں۔

1980 کی دہائی میں بلقیس خانم (ان کی دوسری بیوی) سے شادی کے بعد استاد رئیس خان پاکستان منتقل ہوگئے جہاں ان کا استقبال کھلی بانہوں کے ساتھ کیا گیا جبکہ انہوں نے بھی ایک کے بعد ایک اپنی بہترین ستار نوازی کا مظاہرہ کیا۔

وہ پاکستان میں اکثر کلاسیکل موسیقی کے پروگرامز میں شرکت کرتے تھے جبکہ کئی بار اپنے بیٹے فرحان کے ساتھ ستار بجاتے، وہ نوجوان فنکاروں کی بھی پورے دل سے حوصلہ افزائی کرتے اور ہمیشہ ان کی مدد کرتے۔

معروف رائٹر انور مقصول کو ہفتہ کی شب اس وقت دھچکا لگا جب انہیں توقع تھی کہ ٹی وی چینیلز پر استاد رئیس خان کے انتقال کی خبر کو چلایا جائے گا مگر وہاں معمول کی بریکنگ نیوز اور گرما گرم مباحثے ہی نظر آئے۔

انہیں رواں سال ہی 23 مارچ کو حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں