پاناماپیپر کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) دستیاب ثبوت کی دوبارہ تفتیش کے بجائے نئے ثبوت اکھٹے کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کو دومہینوں میں اپنے کام کو مکمل کرنا ممکن نہیں ہے اور اس کام کو انجام دینے کے لیے 'کئی مہینے' درکار ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی وزیراعظم کے خاندان کے لندن میں فلیٹس اور آف شور کمپنیوں کی تفصیلات کے لیے تصدیق شدہ کاغذات حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔

ٹیم ان کاغذات کو سفارتی راستے سے حاصل کرنے کی کوشش کرے گی اور اس مقصد کے لیے متعلقہ وزارتوں اور ڈپارٹمنٹس کو خطوط لکھے جائیں گے۔

جے آئی ٹی بیرون ملک میں موجود اپنے مشنز سے درخواست کرے گی کہ وہ متعلقہ ممالک کے وزارت خارجہ سے تصدیق کے بعد کاغذات ان کو بھیج دیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادہ حماد بن جاسم بن جابر التھانی کو لندن کی جائیداد کی تصدیق کے لیے دوخطوط لکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

تاہم ذرائع کہتے ہیں کہ یہ سارامعاملہ دومہینوں کے اندر اندر مکمل نہیں ہوپائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما جے آئی ٹی: وزیراعظم، کیپٹن صفدر کے اثاثوں کی تفصیلات طلب

ایک سینیئر افسر جو کئی بڑی تفتیش کا حصہ رہے ہیں، کا کہنا تھا کہ اگر جے آئی ٹی جائیداد کے حوالے سے لگائے جانے والے تمام الزامات کی تفتیش کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کو تفتیش مکمل کرنے کے لیے کئی مہینے درکار ہوں گے'۔

ان کے رائے میں جے آئی ٹی نے عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے سوالوں کے حوالے سے ثبوت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کام کی تکمیل کے لیے کم ازکم تین ماہ درکار ہوں گے۔

ثبوت کے حصول اور تفتیش کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موخرالذکر کو زیادہ کارآمد تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس کو کریمنل پرسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کے تحت جاری رکھا جاتا ہے اور صحیح ثبوت کے ساتھ اس کو ٹرائل کورٹ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے 5 مئی کے احکامات میں جے آئی ٹی کو سی آر پی سی 1898، قومی احتساب آرڈیننس 1999 اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 1975 کے تحت وزیراعظم، ان کے بیٹوں، وزرا یا دیگر ضروری اشخاص کو تفتیش کی خاطر بلانے کے لیے بااختیار بنا دیا ہے۔

مزید پڑھیں:پانامالیکس: جے آئی ٹی کا سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ

ذرائع نے بتایا کہ دستیاب ریکارڈ میں مشتمل معلومات کی تصدیق کے سلسلے میں جے آئی ٹی حدیبیہ ملز کیس میں شامل چند گواہان کو طلب کرسکتی ہے۔

جے آئی ٹی وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار سے اعترافی بیان ریکارڈ کرنے والے مجسٹریٹ کو بھی طلب کرسکتی ہے، اسحٰق ڈار حدیبیہ پیپرملز لمیٹڈ کرپشن کیس میں ملزم تھے جس کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی جانب سے نوازشریف حکومت کے خاتمے کے فوری بعد شروع کیا گیا تھا۔

بعدازاں 20 اپریل 2000 کو اسحٰق ڈار نے چیئرمین نیب کو ایک درخواست دی جس میں انھوں نے اس کیس میں انھیں معافی دینے کی اپیل کی تھی۔

تاہم پاکستان مسلم لیگ نواز کی قومی دھارے میں دوبارہ ابھرنے کے بعد اسحٰق ڈار اپنے بیان سے مکر گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:جے آئی ٹی شریف خاندان کے اثاثوں کی تفتیش کیلئے تیار

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے وزیراعظم نواز شریف کے انکم ٹیکس کی تفصیلات بھی حاصل کرلی ہیں۔

جے آئی ٹی نے نواز شریف اور ان کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے اثاثوں کی تفصیلات کا جائزہ لیا اور اگلی ملاقات کے لیے اہم فیصلے کے بعد اس کارروائی کو پیر تک ملتوی کردیا گیا۔


یہ رپورٹ 13 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں