مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبا کے تشدد سے ہلاک ہونے والے طالبعلم مشعال خان کے والد اقبال خان نے اپنے بیٹے کے قتل کی تحقیقات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تک اس واقعہ کے فنکار گرفتار کیے گئے، لیکن ہدایت کار اب بھی آزاد ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے اقبال خان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان افراد کے خلاف بھی کارروائی کرے، جنہوں نے ان کے بیٹے کو قتل کرنے کی ہدایت جاری کیں۔

انھوں نے کہا کہ میں نے عدالت سے بھی انصاف کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو مستقبل میں دوسرے طلبہ بھی اس قسم کے واقعات کا نشانہ بن سکتے ہیں، لہذا میرا مشعال تو واپس نہیں آسکتا، لیکن یونیورسٹی کے دیگر مشعال کو ہمیں ان لوگوں سے بچانا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اصل ملزمان کو پکڑنے میں ناکام ہوئی، تو اس طرح ہر 15 روز بعد یونیورسٹی میں یہی افراد پھر سے اس قسم کے فعل کے مرتکب ہوں گے جبکہ یوں کوئی نا کوئی نیا واقعہ سامنے آئے گا۔

مزید پڑھیں: گستاخی کا الزام، ساتھیوں کے تشدد سے طالبعلم ہلاک: پولیس

اقبال خان نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے تحفظ کو یقینی بنائے اور معاشرے سے اس قسم کی انتہا پسند سوچ کو ختم کرے تاکہ مزید اسے واقعات پیش نہ آسکیں۔

پروگرام میں مشعال قتل کیس میں وکیل اور صوابی میں مشعال قتل سے متعلق لویا جاگہ کے نمائندے سلیم خان ایڈوکیٹ بھی موجود تھے، جنہوں نے اس واقعہ کا ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ کو قرار دیتے ہوئے پولیس اور تحقیقاتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ تفتیش کا دائرہ ان افراد تک بھی پھیلائے جن کے کہنے پر یہ سب ہوا۔

انھوں نے کہا کہ جس طرح سے توہینِ رسالت کے الزام پر مشعال کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا، وہ اب تک ثابت نہیں ہوسکا اور نہ ہی اُس کے فیس بک اکاؤنٹ سے ایسا کوئی مواد ملا، جس سے اس الزام کی تصدیق ہوسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ افراد نے مشعال خان کے نام سے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنائے، جن پر اس کی موت کے بعد بھی پوسٹ ہوتی رہیں، لہذا ہمارے پاس تمام ٹیکنالوجی موجود ہے، پولیس کا کام ہے کہ وہ پتہ لگائے کہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ کام کیا۔

سلیم خان کا کہنا تھا کہ اب تک کی تفتیش میں صرف ان افراد کے خلاف کارروائی ہوئی، جو ویڈیو میں نظر آرہے ہیں، لیکن ہمیں چاہیئے کہ ان لوگوں کو سامنے لائیں جنہوں نے اس مشتعل ہجوم کو ذہنی طور پر تیار کیا۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام میں شعبہ ابلاغ عامہ کے 23 سالہ طالب علم مشعال خان کو تشدد کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

واقعے کے بعد یونیورسٹی سے متصل ہاسٹلز کو خالی کرالیا گیا جبکہ یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال پر لگایا گیا الزام 100 فیصد غلط ہے، والد

وزیراعظم نواز شریف نے طالبعلم کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں بے حس ہجوم کی طرف سے طالبعلم کے قتل پر بے حد دکھ ہوا۔

بعدازاں مشعال کی بہن نے ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اپنے بھائی پر لگائے گئے الزامات غلط قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مشعال کا کسی سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں تھا۔

خیال رہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد 15 اپریل کو وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے مشعال علم کی ہلاکت کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سمری پر دستخط کرکے باقاعدہ منظوری دی تھی، جبکہ اگلے روز یعنی 15 اپریل کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مشعال خان کی موت کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کی۔

دوسری جانب پولیس نے اب تک مشعال قتل کیس میں 35 افراد سے زائد افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا، جن میں یونیورسٹی کا ایک ملازم بھی شامل ہے جس کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ یہی 'مرکزی ملزم' ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں