نئی دہلی: بھارت میں ریپ کا شکار ہونے والی ایک 10 سالہ بچی کو 20 ہفتے کی مقررہ مدت کے باوجود اسقاط حمل کی اجازت مل گئی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے (اے ایف پی) کے مطابق متاثرہ بچی نے پولیس کو بتایا کہ اسے اس کے سوتیلے والد نے متعدد مرتبہ ریپ کا نشانہ بنایا، جنھیں حراست میں لیا جا چکا ہے۔

یہ معاملہ اُس وقت منظرِعام پر آیا جب بچی نے بھارت میں اسقاط حمل کی قانونی اجازت کے 20 ہفتے کی حد کو عبور کیا۔

واضح رہے کہ بھارت میں اس قانون کے مطابق 20 ہفتہ کے حمل کے بعد تب ہی اسقاط ممکن ہو سکتا ہے جب ماں یا بچے کی جان کو خطرہ ہو۔

مزید پڑھیں: بھارت: چلتی کار میں 22 سالہ خاتون کا گینگ ریپ

مذکورہ کیس کی تحقیقاتی آفیسر گریما دیوی نے اے ایف پی کو بتایا کہ عدالت نے میڈیکل بورڈ سے اس معاملے کو حل کرنے کا کہا جس کے بعد ڈاکٹروں نے اسقاط حمل کا فیصلہ کیا۔

تاہم اس میڈیکل بورڈ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس عمل کی منصوبہ بندی کب سے کر رہے ہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل کسی بھی وقت کر دیا جائے گا۔

حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کو خواتین کے مسائل پر متعدد درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ریپ کی شکایات کے ساتھ ساتھ خواتین کی غیر قانونی انسانی اسمگلنگ بھی شامل ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ 20 ہفتے کے اسقاط کی پابندی میں توسیع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ریپ کا نشانہ بننے والی متاثرہ خواتین اکثر حاملہ ہونے کی تصدیق کرنے میں دیر کر دیتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نئی دہلی کے قریب خاتون ریپ کے بعد قتل

بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق 10 سالہ متاثرہ بچی کی والدہ چاہتی ہیں کہ ملزم کو آزاد کردیا جائے کیونکہ انہوں نے اپنے جرم کی معافی مانگ لی ہے۔

بھارتی اخبار کے مطابق متاثرہ بچی کی والدہ نے شمالی ہریانہ کے ضلع روہتک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'میری بیٹی کی تو زندگی تباہ ہو ہی گئی ہے لیکن میرے دیگر بچوں کا کیا ہوگا، مجھے ان کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے'۔

یادرہے کہ روہتک میں گذشتہ ہفتے بھی ریپ کا ایک واقعہ پیش آیا جہاں 8 افراد نے 23 سالہ ملازمت پیشہ لڑکی کو گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد سر پر اینٹیں مار کر بے دردی سے قتل کردیا تھا۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے حقوق اطفال نے سال 2014 میں بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں ریپ کا شکار ہونے والے ہر تین متاثرین میں ایک نابالغ شامل ہے۔


تبصرے (0) بند ہیں