'عرب نیٹو' اجلاس میں شرکت کے لیے نوازشریف کا دورہ ریاض

کانفرنس کا حصہ بننے کے لیے  جمعے کے روز ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن سے ریاض کے لیے روانہ ہوئے۔—فوٹو: اے ایف پی
کانفرنس کا حصہ بننے کے لیے جمعے کے روز ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن سے ریاض کے لیے روانہ ہوئے۔—فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد/واشنگٹن: انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر سیکیورٹی پارٹنرشپ تشکیل دینے کے لیے منعقد ہونے والی پہلی عرب-اسلامی-امریکی کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیراعظم نواز شریف ریاض جائیں گے۔

اتوار (21 مئی) کو ہونے والی اس کانفرنس میں 54 سربراہان مملکت شریک ہوں گے، جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق کانفرنس کا حصہ بننے کے لیے جمعہ (19 مئی) کو ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن سے ریاض کے لیے روانہ ہوئے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر اور ان کے اتحادی امید کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کرنے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے یہ اجلاس 'عرب نیٹو فورس' کی بنیاد رکھنے کا موقع فراہم کرے گا۔

امریکی صدر کے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے مسلمانوں کی مقدس سرزمین سعودی عرب کے انتخاب کے فیصلے کو واشنگٹن میں دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب اسلام کے بارے میں خطاب دینے کا اعلان مزید تجسس اور کچھ حد تک ان کی تضحیک کا سبب ثابت ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا سعودیہ،اسرائیل اور ویٹی کن کے دورے کا اعلان

خیال رہے کہ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے نواز شریف کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی، جس کا دعوت نامہ سعودی وزیر اطلاعات عواد بن صالح العواد نے گذشتہ ہفتے اپنے اسلام آباد کے دورے میں پہنچایا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی کے حوالے سے تشکیل دی گئی سعودی حکومت کی سرکاری ویب سائٹ پر اجلاس کے اغراض و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسلامی ممالک کے سربراہان اپنی ملاقات میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خدشات پر قابو پانے اور بہتر سیکیورٹی تعلقات کے قیام کو یقینی بنانے کے طریقوں پر غور کریں گے'۔

واضح رہے کہ عرب-اسلامی-امریکی اجلاس ان تین اجلاسوں میں سے ایک ہے جن کی تیاری ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کے موقع پر کی گئی ہے۔

اس موقع پر ہونے والے دیگر دو اجلاسوں میں سعودی امریکی سمٹ اور گلف کوآپریشن کونسل-امریکا سمٹ شامل ہے، ان تمام کانفرنسز کے انعقاد کا مقصد خطے میں سعودی عرب کی اہم سیاسی اور سیکیورٹی فورس کی حیثیت کو بحال کرنا ہے۔

'عرب نیٹو کا تصور'

خیال رہے کی پاکستان سعودی عرب کا قریبی اتحادی ہے، دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون بھی مضبوط ہے جبکہ حال ہی میں پاکستانی حکومت نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی اتحادی فوج کی سربراہی کے لیے خصوصی اجازت جاری کی تھی۔

مشرق وسطیٰ کے معاملات کے ماہر برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دورہ دراصل 'عرب نیٹو کے تصور' کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔

اس کانفرنس کے موقع پر بظاہر شیڈول کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم نواز شریف کی دوطرفہ ملاقات کا موقع ملنا ممکن نہیں لگتا تاہم واشنگٹن میں موجود پاکستانی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب وزیراعظم نوازشریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کی حمایت کررہا ہے۔

واشنگٹن کے سفارتی ذرائع خیال ظاہر کرتے ہیں کہ متعدد سربراہان مملکت کی موجودگی میں ٹرمپ کی کسی سے علیحدہ ملاقات ممکن نہیں تاہم 'امریکا اس کوشش میں ہے کہ نواز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مختصر ملاقات ہوسکے'۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف سے گفتگو : ٹرمپ کی ٹیم کو پاکستانی ورژن پر اعتراض

ڈان سے گفتگو میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ حکام نے ملاقات سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات نہ ہونے کا اشارہ دیا جبکہ پاکستانی سفارت خانے کے مطابق یہ معاملہ اسلام آباد میں دیکھا جارہا ہے اور انہیں اس بارے میں کچھ پتہ نہیں۔

خیال رہے کہ امریکا میں کانگریس سے لے کر تھنک ٹینک اور میڈیا میں بھی اسی کانفرنس کا تذکرہ جاری ہے، امریکی میڈیا اور تھنک ٹینکس کے مطابق اس کانفرنس سے صرف چند روز قبل ٹرمپ انتظامیہ نے دو اہم اسلحے کے معاہدوں کا اعلان کیا تھا جن میں امارات کے ساتھ 1 ارب ڈالر کے میزائلوں کا معاہدہ اور سعودی عرب کے ساتھ 100 ارب ڈالر کی ڈیل شامل ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس اسلحے کو مسلم نیٹو آرمی کے استعمال میں لایا جاسکتا ہے، جس کی سربراہی جنرل (ر) راحیل شریف کریں گے۔

ایران مخالف اتحاد؟

چند رپورٹس میں یہ قیاس بھی کیا جارہا ہے کہ 54 عرب و مسلم ممالک کی اس کانفرنس میں ایران کو مدعو نہیں کیا گیا جس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ایران مخالف اتحاد ہو۔

مزید پڑھیں: امریکا کا ایران کو 'شکست' دینے کیلئے سعودی کوششوں کا خیرمقدم

جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلم رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کرنے پر غور اس مفروضے کو مزید تقویت بخشتا ہے۔

اس سے قبل حال ہی میں وائٹ ہاؤس میں اماراتی شہزادے اور ٹرمپ کی ملاقات کی تفصیلات میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ دونوں سربراہان نے 'ایران کی جانب سے خطے کے استحکام کو لاحق خطرے' پر بات چیت کی۔

تبصرے (0) بند ہیں