پاناما پیپرز کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) عمل درآمد بینچ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) کے خلاف کارروائی کرنے اور اٹارنی جنرل کو انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے جواب پر عدالت کی معاونت کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔

وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف پاناما پیپرز کیس کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے عدالت میں درخواست جمع کرائی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مختلف وفاقی ادارے تحقیقاتی عمل میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اور جے آئی ٹی اراکین کی جاسوسی کر رہے ہیں۔

جے آئی ٹی کو درپیش مسائل کی درخواست پر جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جے آئی ٹی عمل درآمد بینچ کی سماعت ہوئی اور اس دوران عدالت نے حکم دیا کہ آئی بی کے معاملے پر اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی جی آئی بی کا جے آئی ٹی اراکین کے کوائف جمع کرنے کااعتراف

عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ جو ذمہ داری آپ کو سونپی گئی ہے اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔

سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کو جے آئی ٹی کی درخواست اور اپنے جواب کے کچھ حصے پڑھنے کی ہدایت کی۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ ڈائریکٹر جنرل آئی بی نے اپنے جواب میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے نادرا سے ریکارڈ حاصل کیا ہے اور اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی بی کا حاصل شدہ ریکارڈ حسین نواز کے پاس کیسے پہنچا؟ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیئے۔

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: متعلقہ اداروں کا ریکارڈ تبدیل کیا جارہا ہے، جے آئی ٹی کا شکوہ

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا یہ تحقیقات شکوک و شبہات سے بالاتر ہوں گی؟

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات لگے ہیں، اٹارنی جنرل صاحب ہم نے سمجھا تھا آپ اس پر کارروائی کریں گے، ہم آپ کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہا تھا کہ میڈیا پر منظم مہم چل رہی ہے لیکن ہم کسی سے ڈرتے نہیں ہیں ہم نے فیصلہ آئین و قانون کے مطابق کرنا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف کارروائی کرنے اور عمل درآمد رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: فوٹو لیک: تحقیقات کیلئے حسین نواز کا سپریم کورٹ سے رجوع

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال کیا کہ ملک میں وائٹ کالر کرائم، دہشت گردی اور جرائم ختم ہو چکے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی سویلین ایجنسی جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے ججز کے کوائف اکٹھا کر رہی ہے؟

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا آئی بی کی نجکاری کر دی گئی ہے جو پرائیویٹ لوگوں کو خدمات دے رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل آئی بی کی مدت ملازمت میں توسیع ذاتی کام کے لیے کی گئی ہے۔

کیس کی سماعت کو منگل تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Jun 20, 2017 04:30am
سب کو معلوم ھے کہ اج سے دو تین سال پہلے ایسی عدالت نے لاپتہ افراد کے کیس میں ایک ادارے کے سربراہ کو زاتی طور پر پیش ھونے کا حکم دیا تھا لیکن عدالت میں نائب صوبیدار پیش کیا گیا تب عدالت حاموش رہی تھی منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا تھا لیکن سیاستدان کے مقدمات میں القابات دیئے جاتے ھیں جو نامناسب رویہ ھے اسطرح کی رویوں کی وجہ سے عدالت کی عزت کم ھوتی ھے ھم عدالت کے احترام پر مکمل یقین رکھتے ھیں لیکن منتخب حکومت کی سربراہ کو اسطرح کے ناموں سے پکارنے کی قطعی حمایت نہیں کرسکتے ہاں البتہ کسی پر جرم یا الزام ثابت ھوجائے تو کھڑی سزا کی حمایت کرینگے ھم حد سے زیادہ جوڈیشل ایکٹوازم کی تائید نہیں کرسکتے ھیں عدالت اور عدلیہ کا اپنا احترام ھوتا ھے لیکن ریاست کے سربراہ بھی منتخب نمائندہ ھوتا ھے جسکی عزت ھونی چاہئے