رحمٰن ملک کی جے آئی ٹی کے سامنے ایف آئی اے رپورٹ کی تصدیق

اپ ڈیٹ 24 جون 2017
پیپلز پارٹی کے رہنما نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر رپورٹ کی تفصیلات فراہم کیں۔—فوٹو: ڈان اخبار
پیپلز پارٹی کے رہنما نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر رپورٹ کی تفصیلات فراہم کیں۔—فوٹو: ڈان اخبار

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما رحمٰن ملک نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات میں مصروف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے شریف خاندان کی مبینہ منی لانڈرنگ پر دو دہائیوں قبل مرتب کی گئی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی رپورٹ کی تصدیق کردی۔

واضح رہے کہ رحمٰن ملک نے تقریباً دو دہائیوں قبل یہ رپورٹ ایف آئی اے کے عہدیدار کی حیثیت سے مرتب کی تھی۔

گذشتہ روز (23 جون) سابق وزیر داخلہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے اور چھ رکنی تحقیقاتی ٹیم کو رپورٹ کی تفصیلات فراہم کیں۔

بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کیا کہ ان کی گواہی کے بعد شریف خاندان کے پاس منی لانڈرنگ کے الزامات سے فرار کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔

تاہم سابق وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جے آئی ٹی کو آگاہ کرچکے ہیں کہ پیشگی اجازت سے قبل کیس کی پیروی کے دوران اس رپورٹ یا ان کے پیش کردہ دیگر شواہد کو استعمال نہ کیا جائے.

فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں داخل ہونے سے قبل رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ 'میں جے آئی ٹی کے سامنے ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے پیش ہورہا ہوں اور یہ پیشی بطور سیاستدان یا سابق وزیرداخلہ کی حیثیت سے نہیں'.

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے ساتھ کوئی خفیہ ڈیل نہیں ہوئی: رحمٰن ملک

بعد ازاں رحمٰن ملک نے ایف آئی اے کے ان عہدیداران کے نام بھی جاری کیے جو شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کا حصہ تھے.

ان حکام میں ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری کے قریبی دوست احمد ریاض شیخ، وسیم احمد، سجاد حیدر، محمد حنیف، بشارت شہزاد، کامران عطااللہ، جاوید حسن، غلام اختر جتوئی، شوکت علی اور ثناءاللہ شامل تھے.

رحمٰن ملک کے مطابق انکوائری رپورٹ جمع کرانے کے بعد اس وقت کی حکومت نے احمد ریاض شیخ، سجاد حیدر اور ثناءاللہ سمیت انہیں چارج شیٹ جاری کی تھی.

رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ وہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے رپورٹ کے مندرجات کی تصدیق کرچکے ہیں اور ستمبر 1998 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کی جانب سے انہیں لکھے گئے دو خطوط بھی پیش کرچکے ہیں، جس میں انہوں نے شریف خاندان پر عائد منی لانڈرنگ الزامات پر رحمٰن ملک کو کارروائی کی ہدایت دی تھی۔

انہوں نے اس تاثر کو بھی زائل کیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تحقیقاتی رپورٹ جمع کرانے سے قبل ہی انہیں عہدے سے ہٹادیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی نے رحمٰن ملک کو بھی طلب کرلیا

رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے ان کی ذمہ داریاں نومبر 1998 کو اختتام پذیر ہوئیں جبکہ تحقیقاتی رپورٹ وہ ستمبر 1998 میں جمع کراچکے تھے۔

اپنی پارٹی قیادت کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہوئے رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ وہ پی پی پی چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی اجازت سے جے آئی ٹی سیکریٹریٹ میں پیش ہوئے۔

ساتھ ہی انہوں نےپی پی پی اور ن لیگ کے درمیان خفیہ ڈیل کی افواہوں کو بھی مسترد کیا۔

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے لیے فخر کی بات ہے آج وہ دہائیوں قبل سامنے آنے والا منی لانڈرنگ کا اسکینڈل بےنقاب کررہے ہیں جس میں شریف خاندان بھی ملوث تھا۔

سابق ایف آئی اے عہدیدار انعام سہری کا نام نہ لیتے ہوئے رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کسی کو بھی تحقیقات میں مدد کی اجازت دے گی، اگر گواہ کے لیے پاکستان آنا ممکن نہیں تو جے آئی ٹی اس کا بیان ریکارڈ کرنے بیرون ملک جاسکتی ہے۔

خیال رہے کہ سابق ایف آئی اے عہدیدار انعام سہری نے شریف خاندان کے خلاف کی گئی اپنی تحقیقات فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی۔

رحمٰن ملک کا مزید کہنا تھا کہ وہ مستقبل میں بھی جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔


یہ خبر 24 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں