زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا دستورِ زباں بندی

اپ ڈیٹ 24 جون 2017
خدا تعالی اس مادر علمی پر رحم فرمائے جو خود اپنے ہاتھوں اپنے زوال کی جانب گامزن ہے۔ — فوٹو بشکریہ یو اے ایف ویب سائٹ۔
خدا تعالی اس مادر علمی پر رحم فرمائے جو خود اپنے ہاتھوں اپنے زوال کی جانب گامزن ہے۔ — فوٹو بشکریہ یو اے ایف ویب سائٹ۔

اقوامِ عالم میں یونیورسٹیوں کو اس جگہ کا درجہ حاصل ہے جہاں آپ کے خیالات پر قدغن نہیں لگائی جاتی. جہاں آپ کو اپنے تصورات پیش کرنے، تعمیری تنقید کرنے، اور معاشرے کی بہتری کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے پر عتاب کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ تب ہی تو دنیا کے تمام تلخ حقائق، چبھتے ہوئے نظریے اور نئی دریافتیں یونیورسٹیوں سے ہی نکل کر معاشرے تک پہنچتی ہیں۔

جس زمانے میں ہمارے یہاں طلبہ سیاست پر پابندی نہیں تھی، اس وقت طلبہ یونینز میں حصہ لینا بھی اتنی ہی تعمیری سرگرمی سمجھا جاتا تھا جتنا کہ تقریری مقابلہ، کھیل، یا کوئی ثقافتی پروگرام۔

مگر مارشل لاء دور میں جہاں سوچنے، لکھنے، اور بولنے پر پابندی لگی، وہیں طلبہ سیاست بھی معتوب قرار پائی، اور جہاں رفتہ رفتہ پاکستانی یونیورسٹیوں کے کیمپسز سے صحتمند سیاست غائب ہوئی، وہیں ہماری یونیورسٹیوں میں سے تنقید اور برداشت کے کلچر کا بھی خاتمہ ہوا۔

تازہ ترین مثال جامعہ زرعیہ فیصل آباد کی ہے جہاں اس ماہ کے شروع میں چار اور اب تین طلبہ کو سوشل میڈیا پر کمنٹس کرنے اور کمنٹس لائک کرنے کے جرم میں نکال دیا گیا ہے۔ یہ طلبہ اپنی اپنی معافی کی درخواستوں کے ساتھ اب اس گناہ کی معافی مانگ رہے ہیں، جو انہوں نے کیا ہی نہیں لیکن ان کے نام لکھ دیا گیا۔

ایک اسٹوڈنٹ جن کو یونیورسٹی سے نکالا گیا انہوں نے انتظامیہ کی طرف سے دی گئی ایک سوشل میڈیا ایڈورٹائزمنٹ پر جس میں وزیرِ اعلیٰ کے جامعہ میں آنے پر طلبہ کو پروگرام میں ضرور شریک ہونے کی تنبیہ کی گئی تھی، اس پر یہ کمنٹ دیا کہ اس کا مطلب تھا ویسے تو کسی نے اس تقریب میں آنا نہیں تھا۔ اس کے اس کمنٹ کو کسی ساتھی طالب علم نے لائک کردیا، دونوں کو دو دو سال کے لیے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔

دو بچے جن سے میری ذاتی طور پر بات ہوئی، دونوں ہی بہت ذہین طالب علم ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں جنہوں نے کسی نیوز ایجنسی کی سوشل میڈیا خبر کے نیچے یہ تبصرا کیا "یپ (yup)"۔ انتظامیہ نے کہا کہ یونیورسٹی کے خلاف لگی ہوئی خبر پر تمہاری یہ جرات، اس لیے اس کو وارننگ دی گئی اور دس ہزار روپے جرمانہ کردیا گیا۔

پڑھیے: زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں پرو وائس چانسلر کی خلافِ ضوابط تقرری

وہ بے چارہ یہ جرمانہ ادا کرنے پر مجبور تھا کیوں کہ اس کے ادا کیے بغیر وہ اپیل کرنے کا بھی حق دار نہیں۔ دوسرے طالب علم نے ایک فیس بک پیج روزنامہ یو اے ایف پر کوئی تبصرہ کیا جو اب اسے یاد بھی نہیں۔ وہ کئی روز اپنے کیے ہوئے تبصرے کو ڈھونڈتا رہا لیکن اسے نہیں ملا، لیکن کیوں کہ انتظامیہ اس صفحے پر کیے گئے کمنٹ کو پڑھ چکی تھی، اس لیے اس بچے کو دو سال کے لیے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔

اس بچے کی ڈگری مکمل ہونے والی ہے، شاید ابھی اس کا وائیوا رہتا ہے، لیکن اس کی ڈگری کا مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے، ویسے بھی جس طرح ان بچوں کی رسوائی ہوئی ہے ان کو جاب حاصل کرنے کے لیے بھی کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایک ٹی وی پروگرام میں جامعہ کے وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ یہ طالب علم فحش الزامات اور بیہودہ باتیں پھیلانے میں ملوث تھے، انہوں نے ناصرف اساتذہ بلکہ ان کی فیملیز کے متعلق گھٹیا گفتگو کی ہے۔ ان کی باتوں سے مجھے اس فیس بک صفحہ روزنامہ یو اے ایف کا پتہ چلا، اس صفحہ کو میں نے اچھی طرح کھنگالا، اس میں کوئی ایسی بے ہودہ گفتگو کا شائبہ نہ ملا، البتہ چبھنے والے تند و تیز جملے اور تلخ و شیریں پیرائے کی کاٹ دار باتیں ضرور ہیں۔

جامعات دنیا بھر میں طالب علموں کو جس ایک بنیادی صفت سے روشناس کرواتی ہیں وہ تحقیق اور جستجو ہے، اور تحقیق تو شروع ہی سوال پوچھنے سے ہوتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ہمارے دور میں ایک لڑکے کو استاد نے اس لیے اچھے نمبر نہیں دیے تھے کہ وہ کلاس میں سوال بہت مشکل پوچھتا تھا۔ اس زمانے میں سوشل میڈیا نہ تھا ورنہ ہم بھی بغیر ڈگری کے کاغذ کے یا نجانے کتنے عشروں میں ڈگری مکمل کر پاتے، وہ طالب علم جو سوال پوچھنے کے فن سے عاری ہوں کیا وہ تحقیق کے جوہر سے آشنا ہو سکتے ہیں؟

مزید پڑھیے: میرٹ کے خلاف تقرریوں پر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے جواب طلب

کیا اگر فیکٹی ڈویلپمنٹ کے وظائف اساتذہ کے بچوں یا عزیز و اقارب میں بٹے ہیں تو طالب علموں کا سوال پوچھنا فحاشی یا گھٹیا پن کے زمرے میں قرار دیا جا سکتا ہے، یا ایک صفحہ قومی اخبار میں چھپنے والی ایسی کرپشن کہانی کو شئیر کرتا ہے جس میں اس کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا بھی نام ہے تو اس کو لائک کرنے کی سزا یونیورسٹی سے دو سال کا اخراج ہے؟جب طلبہ اپنے مہتمم کو صادق و امین نہ سمجھتے ہوں تو ان کے دل میں اپنی محبت زبردستی کیسے انڈیلی جا سکتی ہے؟

اس سے پہلے بھی جامعہ زرعیہ ایک پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ کو جامعہ پر تنقید کرنے کے الزام میں نکال کر بحال کر چکی ہے۔ اس طالب علم کا ایک بھائی وکیل تھا، لیکن شاید ان چھے سات طالب علموں کے خاندان میں کوئی وکیل نہیں، وگرنہ جس قسم کے ماٹھے الزامات میں ان طالب علموں کو یونیورسٹی سے نکالا گیا ہے اس پر موجودہ انتظامیہ کو عدالت کے کٹہرے تک لایا جانا چاہیے کہ وہ کن قوانین کے تحت طالب علموں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر سکتے ہیں؟

ماضی قریب میں کاشان حیدر نامی جس طالب علم کو بحال کیا گیا تھا اس نے انتظامیہ کی طرف سے معافی نامہ دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا، اس کا مؤقف تھا کہ معافی نامہ دینے کا مطلب تو اپنی خطا تسلیم کرنا ہے جبکہ اس نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا۔

انتظامیہ پر بیرونی دباؤ کی وجہ اس طالب علم کو بحال کر دیا گیا تھا لیکن کیا اس طالب علم کی تعلیم کا سلسلہ اس توازن سے چل پائے گا اور مستقبل میں اس کو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، یہ سوال ابھی جوں کا توں موجود ہے۔

زیادہ پرانی نہیں، بلکہ اسی ماہ کے اوائل کی بات ہے جب مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے بہیمانہ تشدد سے قتل ہونے والے مشعال خان کے بارے میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے انکشاف کیا تھا کہ وہ یونیورسٹی میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر کھل کر بولتا تھا جس سے لوگوں کے مفادات کو خطرات لاحق تھے چنانچہ اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کیا گیا۔

جانیے: زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر نے اپنا تقرر خود کر لیا

ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں میں یہ کیسا کلچر فروغ پا رہا ہے کہ جو اختلاف کرے اسے یا نکال دو یا قتل کروا دو؟ اس سارے معاملے کو دیکھ کر ایک مستقل کرب میں مبتلا ہوں۔ ہم نے اپنے دور میں ایسی بہت سی مصلحتوں کا سامنا کیا اور چپ چاپ ڈگری کو ہی ترجیح دی کیوں کہ ہمارے خاندان میں بھی وکیل کی فیس بھرنے کا اہتمام مشکل تھا، اس لیے چپ چاپ سمجھوتے کا زہر پیتے آئے۔

اب یہ معصوم بچے جن کا قصور کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ انہیں سچ نے اپنی جانب کھینچا، انتظامیہ اپنی طاقت اور غرور سے انہیں زچ کرنا چاہتی ہے۔ اور مجھے پتہ ہے یہ بچے معافی نامہ لکھ ہی دیں گے کیوں کہ بہرحال وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ یہ بچے یونیورسٹی سے سچ بولنا اور حقوق کے لیے آواز اٹھانا سیکھنے کے بجائے سمجھوتہ کرنا سیکھ کر نکلیں گے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اس ظلم کی فریاد کس سے کی جائے۔

پرسوں کچھ میڈیا کے نمائندوں نے یونیورسٹی میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ان کی جو درگت بنی وہ سب کے سامنے ہے۔ جہاں ایک قومی ٹی وی چینل کے نمائندوں کا یہ حشر کیا جائے، وہاں میری یہ چند سطور کیا معنی رکھتی ہیں؟

لیکن ان بچوں کے معافی نامہ سے پہلے یہ میرا معافی نامہ سمجھا جائے کہ میں ان بچوں کو سچا سمجھتے ہوئے بھی ان کی مدد کرنے سے قاصر ہوں۔ خدا تعالی اس مادر علمی پر رحم فرمائے جو خود اپنے ہاتھوں اپنے زوال کی جانب گامزن ہے۔

تبصرے (5) بند ہیں

Imran Ahmad Qasrani Jun 24, 2017 12:34pm
Bahut khushi hoi aap ka mazmoon perh ker. sath sath ye bhi khushi hoi k ab hamari universties bhi Doolo shah k chohay peda kareen gi. Mulk ki ye taraqi dheek ker dil ko sakoon milta hai.
KHAN Jun 24, 2017 05:59pm
سوشل میڈیا والوں کو ڈرنا نہیں چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ٹھیک ہونا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں تو اس ملک سے دفع ہونا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلط کام کو غلط کہنا بہت اچھی بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جے ہو سوشل میڈیا والوں کی
Hafez Jun 24, 2017 06:44pm
ریسرچ اور جستجو زرعی مضامین میں کرنی تھی نہ کہ وی سی آفس کی۔ اس لئے
Imran Ahmad Qasrani Jun 24, 2017 07:24pm
@KHAN sirf social media ko nai jin k hath qalam aur camra hai aur jin k hath news channel hain unko bhi.
shan Jun 24, 2017 09:13pm
did you do a proper research to find toxic content on social media before writing this article? what culture we are promoting in the name of freedom of speach/writing?