یہ مضمون ابتدائی طور پر 6 مارچ 2017 کو شائع ہوا اور 1 جولائی 2017 کو ون یونٹ کے خاتمے کے 47 سال مکمل ہونے پر دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔


50 سال قبل، 4 مارچ 1967 تقسیمِ ہند کے بعد سندھ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ یہ وہ دن تھا جب 207 طلباء کو ملک میں 1955 سے نافذ ون یونٹ اسکیم کے خلاف احتجاج کرنے پر جامشورو اور حیدرآباد کے درمیان غلام محمد بیراج (کوٹری بیراج) پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔

یہ احتجاج سندھی طلباء کے اندر موجود اس ابال کا نکتہء عروج تھا جو ون یونٹ کے خلاف طویل عرصے سے ان کے اندر ہی اندر اٹھ رہا تھا۔ اس کی وجوہات سندھ اور اس کے لوگوں کے ساتھ روا رکھی گئی ثقافتی، سیاسی، انتظامی اور معاشی ناہمواریوں پر مبنی تھیں۔

ڈھائی ہزار سال قدیم سندھی زبان کو مغربی پاکستان میں کوئی سرکاری حیثیت حاصل نہیں تھی۔ سندھ کے دیہی علاقوں کے پرائمری اسکولوں کو چھوڑ کر سندھی زبان میں تعلیم دینا بند کر دیا گیا تھا۔ اس طرح سندھیوں سے ان کی ثقافت اور زبان کی ترویج کے تمام مواقع چھین لیے گئے تھے۔

سیاسی اور انتظامی طور پر ون یونٹ کا مطلب تھا کہ سندھ بحیثیت ایک اکائی ختم ہوگیا تھا اور اسے چھوٹے سے چھوٹے معاملات کے لیے بھی دارالحکومت لاہور کی جانب دیکھنا پڑتا تھا۔

معاشی سطح پر اسے بیراجوں کی تعمیر سے زرخیز بننے والی زیادہ تر زمینوں کو بیوروکریسی اور فوج کے حوالے کرنا پڑا۔ اور یہ صورتحال آج بھی جاری ہے۔

تقسیم کی وجہ سے ہندوستان سے مسلم مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان آئی، اور یہاں سے سندھی ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان چلی گئی، چنانچہ صوبے کے بڑے شہر بشمول کراچی، سندھیوں کے لیے اقتصادی اور ملازمت کے مواقع کے لیے غیر اعلانیہ طور پر نو گو ایریاز میں تبدیل ہوگئے۔

یہ تحریک درحقیقت تب شروع ہوئی جب یونیورسٹی آف سندھ کے وائس چانسلر حسن علی عبدالرحمان کو فروری 1967 میں مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان آف کالاباغ نے برطرف کر دیا تھا۔

عبدالرحمان اس یونیورسٹی کے پہلے سندھی وائس چانسلر تھے اور انہیں سندھ کے دور دراز ضلعوں سے تعلق رکھنے والے سندھی طلباء کے پروفیشنل کالجوں میں داخلوں میں سہولت پیدا کرنے کے لیے کوٹہ مقرر کرنے پر نکال دیا گیا تھا۔ طلباء میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور وہ رحمان کی بحالی کا مطالبہ کرنے لگے۔

4 مارچ کو سندھ یونیورسٹی کے حیدرآباد کیمپس میں سندھ یونیورسٹی، لیاقت میڈیکل کالج اور انجینیئرنگ کالج کے طلباء کی جنرل باڈی کا اجلاس طلب کیا گیا۔ طلباء یونیورسٹی کی بسوں میں وہاں پہنچ رہے تھے کہ پولیس نے انہیں جی ایم بیراج پر گھیر لیا۔ طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تمام 207 کو گرفتار کر لیا گیا۔

پولیس کے تشدد سے پورے سندھ میں عوامی احتجاج شروع ہو گیا۔ وائس چانسلر کی برطرفی کا فیصلہ واپس تو نہیں لیا گیا تھا، مگر یہ لمحہ، جسے اب 4 مارچ کی تحریک کہا جاتا ہے، ہر سال منایا جاتا ہے کیوں کہ اس نے سندھ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

میں اس وقت سندھ یونیورسٹی کے حیدرآباد کیمپس میں پہلے سال کا طالبِ علم تھا۔ مجھے وہ خوشگوار شام آج بھی یاد ہے جب اجتماعی گرفتاری کی خبر آئی تھی۔

یہ پیشرفت افسوسناک صرف اس لیے نہیں تھی کہ طلباء کو گرفتار کیا گیا تھا، بلکہ اس لیے بھی کیوں کہ حکام طلباء کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہ رہے تھے۔

وائس چانسلر کی برطرفی کے خلاف اٹھنے والے احتجاج کو دبانے کے لیے حیدرآباد کے کمشنر مسرور احسن نے ان لوگوں کو ابھارنا شروع کیا جو اردو بولنے والے طلباء کے رہنما سمجھے جاتے تھے۔

یونیورسٹی معاملات میں مغربی پاکستان حکومت کی مداخلت کے خلاف مزاحمت پر سندھ یونیورسٹی کے پہلے سندھی وائس چانسلر کی برطرفی کے خلاف طلباء کے احتجاج کو اب لسانی رنگ دیا جانے لگا تھا۔

چوں کہ اردو بولنے والے زیادہ تر طلباء حکومتی اقدام کے حامی نظر آ رہے تھے، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے، بھلے ہی علامتی طور پر ہی سہی، تاکہ طلباء کے درمیان لسانی دراڑ پڑنے سے روکا جائے۔ یہ صرف گرفتار طلباء سے یکجہتی کا اظہار کر کے ہی ہو سکتا تھا۔ اس کا کم سے کم طریقہ دیواروں پر پولیس کے ایکشن کے خلاف نعرے لکھنا تھا۔

چنانچہ میں اور میرے دوست عنایت کاشمیری نے برش اٹھایا اور تلک چاڑھی، جہاں حیدرآباد کے زیادہ تر تعلیمی ادارے قائم تھے، وہاں پولیس کے اقدامات اور ایوب کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف نعرے لکھنے شروع کر دیے۔

دیواروں پر نعرے لکھتے ہوئے ہماری آنکھیں ایک طرفہ سڑک پر آنے والی ٹریفک پر مرکوز تھیں، تاکہ پولیس کی گاڑی آنے کی صورت میں ہم فوراً گلیوں میں گم ہوسکتے۔ ہم اتنے بھولے تھے کہ نہیں جانتے تھے کہ اس ملک میں پولیس ٹریفک کے بنیادی قوانین کی پاسداری نہیں کرتی۔

یکایک پولیس کی ایک گاڑی پوری رفتار سے ایک طرفہ سڑک کی مخالف سمت سے آئی اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ کر سکتے، ہماری کمروں پر لاٹھیوں کی برسات کر دی گئی، اٹھایا گیا اور وین کے اندر پھینک دیا گیا۔ منزل: مارکیٹ تھانہ۔

ہمیں ہتھکڑیاں پہنا کر ایس ایچ او کے دفتر میں چار دن اور راتوں تک دو کرسیوں کے درمیان بٹھائے رکھا گیا۔ اس سے ہم میکسم گورکی کے 'مدر' اور کمیونسٹ مینی فیسٹو سے بھی بڑے باغی بن گئے تھے۔

مارکیٹ تھانہ چکلے کے قریب ہی واقع تھا۔ اس تھانے میں پولیس کا زیادہ تر کام طوائفوں کو بازار سے اٹھانا اور بھتے اور تفریح کے لیے تھانے لانا ہوتا تھا۔

اس دوران ہمیں کھانے کے لیے شاید ہی کچھ دیا گیا تھا، اور پانی ہم پیتے نہیں تھے تاکہ ٹوائلٹ کے لیے گڑگڑانا نہ پڑے۔ چار دن کے بعد حیدرآباد کے مشہور وکیل اور قوم پرست رہنما حفیظ قریشی ہمیں ڈھونڈتے ہوئے وہاں آ پہنچے۔ انہوں نے ایس ایچ او سے ایف آئی آر کی کاپی طلب کی تاکہ ہمیں چھڑوانے کے لیے قانونی کارروائی کی جا سکے، مگر ایف آئی آر تو موجود نہیں تھی۔

بظاہر ایس ایچ او نے اپنے حکام کو ہماری گرفتاری سے آگاہ ہی نہیں کیا تھا۔ وہ فوراً گھبرا گئے اور ہمیں یہ کہتے ہوئے وکیل کے حوالے کر دیا کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا ہم طلباء ہیں ورنہ ہمیں معمولی سرزنش کے بعد چھوڑ دیا جاتا۔ خوش قسمتی سے وہ دور لاپتہ افراد کا دور نہیں تھا۔

اظہارِ یکجہتی کے اس چھوٹے سے اقدام سے ہمیں یونیورسٹی میں بے حد شہرت اور دوست ملے۔ میں مشہور سندھی قوم پرست رہنما جام ساقی کو پہلے ہی جانتا تھا، اور انہیں ان کی بے لوث طبیعت کے لیے پسند بھی کرتا تھا۔ وہ تھرپارکر کے ایک دور دراز گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔ میں تلک چاڑھی کی ایک چھوٹی سی عمارت میں ان کی کھولی میں بھی جاتا تھا۔

وہ شام ڈھلے ایک چھوٹے سے چولہے پر اپنے دن کا واحد کھانا تیار کیا کرتے تھے۔ پھر بھی وہ اس میں مجھے ضرور شریک کیا کرتے۔ میں نے ایسا شخص کبھی اپنے خاندان میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے جانا کہ زندگی اس سے کہیں زیادہ گہری اور وسیع ہے جس کا تجربہ آپ اپنے خاندان میں کرتے ہیں۔ میں نے اصلی 'انسان' وہاں پائے، جہاں دیکھنے سے مجھے منع کیا گیا تھا۔

4 مارچ میرے لیے اس صوبے کے ساتھ ہم آہنگی کا دن تھا جس نے ہمارے جیسے ہزاروں اردو بولنے والے گھرانوں کو تقسیم کے بعد اپنے ہاں پناہ دی تھی۔

وقت کے ساتھ ساتھ میں نے سندھی زبان سیکھی، اور کارکن کے طور پر سندھ کے دور دراز شہروں اور دیہات کے دوروں میں میں نے خود کو سندھی تہذیب کی اقدار سے بھر لیا۔ جام ساقی کے ساتھ میں مزید عظیم شخصیات مثلاً حیدر بخش جتوئی، ابراہیم جویو، سوبھو گیانچندانی، عثمان ڈیپلائی اور دیگر سے بھی واقف ہوا۔

ان تمام لوگوں کی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ بناوٹ کی غیر موجودگی، اور انتہا درجے کی سادگی تھی۔ چنانچہ میں اس زمانے میں اردو بولنے والے لوگوں کے سندھ کے لوگوں کی جانب معاندانہ رویے سے مزید بیزار ہوتا چلا گیا۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ 4 مارچ نے سندھ کے لوگوں میں اس رویے کے خلاف بیداری پیدا کی جو اس ملک کے غالب افراد نے ان سے روا رکھا تھا۔ اس کے لیے تمام اصناف میں سندھی ادب کے بے تحاشہ فروغ کے ذریعے میدان تیار کیا گیا۔ شیخ ایاز جیسے شعراء نے سندھ کے درد کو محسوس کیا اور اسے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا۔

اس میں حیرت کی بات نہیں کہ 4 مارچ کے بعد معمول کا ایک ایونٹ 'سندھی شام' سندھ کی شناخت اور فخر کی علامت بن گیا تھا۔ بظاہر ثقافتی چہرہ رکھنے والی 'سندھی شام' اب ایک قوم کے نام پر غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف مزاحمتی فورم بن چکا تھا۔

4 مارچ کے بعد سندھ میں لاتعداد ادبی جریدوں کی اشاعت شروع ہوئی۔ آج بھی سندھی پریس عام شہریوں کے سب سے زیادہ قریب ہے۔

'پولیٹیکل ڈائنیمکس آف سندھ' کے مصنف ڈاکٹر تنویر احمد کو چھوڑ کر بدقسمتی سے پاکستان اور پاکستان سے باہر کے زیادہ تر مؤرخین اور سیاسی ماہرین 4 مارچ کی تحریک کی تاریخی اہمیت سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔

یہ تحریک پاکستان میں اس جمہوری بیداری کا ایک اہم حصہ تھی جس کی وجہ سے ایوب خان کی ڈکٹیٹرشپ اور ون یونٹ کا خاتمہ ہوا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں طلباء تحریکوں پر لکھی گئی کتابیں بھی اس حقیقت سے نظریں چراتی ہیں کہ سندھ ون یونٹ کی وجہ سے ملک کے نقشے سے غائب ہونے کے باوجود میدان میں واپس آیا، اور اپنے طلباء کی ہمت اور مزاحمت کی وجہ سے اپنی سیاسی حیثیت منوانے میں کامیاب ہوا۔

4 مارچ کی اس شام کو اب تقریباً 50 سال ہو چکے ہیں۔ یہ بہت طویل عرصہ ہے، مگر اسے فراموش کرنا ناممکن ہے۔ یہ طویل عرصہ میرے اندر سے اس فخر کو ختم نہیں کر سکا ہے جو مجھے اس عظیم مرحلے میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کرنے پر محسوس ہوتا ہے۔

میں لطیف سائیں کی اس خوبصورت دعا کے ساتھ اختتام کرتا ہوں

سائنم سدائين ڪرين مٿي سنڌ سڪار

دوست مٺا دلدار .. عالم سڀ آباد ڪرين

(اے خدا، سندھ کو ہمیشہ خوشحال رکھنا

میرے پیارے دوست، پوری دنیا پر اپنی رحمت نازل کر)

انگلش میں پڑھیں۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر 6 مارچ 2017 کو شائع ہوا اور 1 جولائی 2017 کو ون یونٹ کے خاتمے کے 47 سال مکمل ہونے پر دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔


اگر آپ بھی پاکستان میں کسی طلباء تحریک کا حصہ رہے ہیں تو ہمیں اپنی کہانی [email protected] پر لکھ کر ارسال کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

Anwer Jul 01, 2017 05:55pm
تمام جیالےنوجوان ضرورپڑھیں،تاریخ جانناضروری ہےکسطرح طلبہ نےNSFکےجھنڈےتلےآمریت کےخلاف جنگ لڑی اوربعدمیں پیپلزپارٹی کاہراول دستہ بنے
Tipu Jul 01, 2017 06:52pm
Bohat khoob. Ap ki strugggle Sindh rights kay lien kafi mushkil struggle thi. Finally sindh has got autonomy. Lakin etni struggle kay baad ajj sind ki halat one unit aur british raj kay muqablay may kahi ziyada abtar hay. Kiyon?
Anwer Jul 01, 2017 08:01pm
@Tipu It is very sad , Zia era and permanent conspiracies against Sindh by powers destroyed Sindh
aamir Jul 02, 2017 12:19pm
In recently published Jam Saqi book these events are narrated but he accepted that over emphasis on nationalist politics and linguistic politics compelled leftists to compromise on class question and he acknowledged that even communists were divided on ethnic grounds in same period. One unit was wrong but over emphasis on nationalism was misleading too. The author failed to mention that why Ayub was discredited among a circle of establishment after Tasqand accord and how gen Yayha used anti Ayub movement for his rule, a new marshlah. After 50 years, we need to revisit and analyses things rather then remain busy in prides and prejudices.
Shahid Sattar Jul 02, 2017 03:32pm
Belonging to this one of the most contemptible degenerate societies that ever lived on this planet it is evident that we have never learnt our mistakes nor are we willing to at least try to undo them. We with our holier than thou attitude think that we are incapable of committing any errors and so it goes on and on giving our ego a satisfaction that few people possess.