عدالتی اور سیاسی ہنگامہ خیزی کا ایک طویل دن شدید بے یقینی کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ سپریم کورٹ میں کل کی سماعت کے بعد اب تک صرف دو حقائق واضح ہیں، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ جمع کروا دی ہے، اور سپریم کورٹ آئندہ پیر کو اگلی سماعت کرے گی۔

مگر جے آئی ٹی رپورٹ کے جو حصے میڈیا میں جاری ہوئے ہیں، ان سے یہ لگتا ہے کہ جے آئی ٹی نے وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کی دولت کے جواز کے خلاف کئی تباہ کن مشاہدات کیے ہیں۔

اس کے علاوہ بظاہر جے آئی ٹی نے مزید تحقیقات کے لیے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔ مگر جے آئی ٹی کے پاس اپنی سفارشات پر عمل کروانے کی کوئی قانونی طاقت نہیں ہے؛ یہ سپریم کورٹ ہے جو یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا معاملہ نیب کے سپرد کرنا چاہیے، یا نواز شریف کو فوری طور پر نااہل کیا جا سکتا ہے۔

مگر سب سے پہلے ہمیں جے آئی ٹی رپورٹ کی غیر جانبداری اور معقولیت کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے خودکار انداز میں رپورٹ کو خوش آئند قرار دیا، جبکہ مسلم لیگ (ن) نے اس پر اعتراضات اٹھائے ہیں، مگر یہ سب جانبدار سیاسی بیانات ہیں۔

جب سپریم کورٹ اس رپورٹ کا جائزہ لے گی اور یہ رپورٹ عوام میں آئے گی، تب یہ واضح ہوجائے گا کہ آیا جے آئی ٹی نے بااصول طریقے سے وہ کام مکمل کیا ہے یا نہیں جو اسے عدالت نے سونپا تھا، اور یہ کہ رپورٹ پروفیشنل اور آزادانہ تقاضوں پر پوری اترتی ہے یا نہیں۔

جے آئی ٹی جن تنازعات میں الجھی، ان کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے اس رپورٹ کی غیر جانبداری اور معقولیت کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس لیے کورٹ کا پاناما پیپرز کیس کے تمام فریقوں کو رپورٹ کی نقول جاری کرنے کا فیصلہ درست اقدام ہے۔

اس کے بعد عدالت کو اپنے سامنے موجود آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔ مقصد ایسا فیصلہ ہونا چاہیے جو وقت کے ساتھ درست ثابت ہو، احتساب کو آگے بڑھائے، اور ایسی عدالتی مثال قائم کرے جسے سے مستقبل میں بھی فوری طور پر فائدہ اٹھایا جا سکے۔ شارٹ کٹس کے لیے سیاسی دباؤ ضرور ہوگا، مگر ایک معقول حتمی فیصلے کے دور رس نتائج ہوں گے۔

اور آخر میں، مسلم لیگ (ن) کو جمہوریت کی خاطر درست فیصلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کے حامیوں کا یہ ماننا درست ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت میاں نواز شریف کی وجہ سے ہے، مگر آئینی پوزیشن واضح ہے: مسلم لیگ (ن) کی حکومت وزیرِ اعظم نواز شریف کے بغیر بھی قائم رہ سکتی ہے۔

اگر سپریم کورٹ حکم دیتی ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کا کرپشن کے الزامات پر ٹرائل ہونا چاہیے، تو میاں نواز شریف کے قانونی جواز کو زبردست دھچکا پہنچے گا۔

اس وقت ممکنہ طور پر وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے اخلاقی اور سیاسی طور پر استعفیٰ دینا لازم ہو جائے۔ اپنے خلاف موجود الزامات کا دفاع کرنا نواز شریف کا قانونی حق ہے، مگر انہیں اور مسلم لیگ (ن) کو جمہوری نظام کی جانب اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔


**یہ اداریہ ڈان اخبار میں 11 جولائی 2017 کو شائع ہوا **

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں