لاہور دھماکے کے بعد ہسپتالوں کے باہر رقت آمیز مناظر

اپ ڈیٹ 25 جولائ 2017
ہسپتالوں کے باہر اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی—۔فوٹو/ اے پی پی
ہسپتالوں کے باہر اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی—۔فوٹو/ اے پی پی

لاہور کے فیروزپور روڈ پر ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد صوبائی دارالحکومت کے سرکاری ہسپتالوں کے باہر اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔

ریسکیو 1122 کی جانب سے جاری ہونے والی اپ ڈیٹس کے مطابق خود کش حملے کے 3 گھنٹے کے بعد لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں 54 کے قریب زخمی افراد کو لایا گیا۔

خواتین سمیت تقریباً 28 زخمیوں کو لاہور جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں کچھ مریضوں کی تعداد تشویش ناک جبکہ کچھ کی خطرے سے باہر بتائی گئی۔

اسی طرح 13 مریضوں کو جناح ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے حملے میں زخمی ہونے والوں کی فہرست مرتب کرنے میں تاخیر کی وجہ سے اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لیے آنے والے رشتہ داروں اور دوستوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

تاہم بعدازاں ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور لوگوں کی سہولت کے لیے 'کرائسز مینیجمنٹ سیل' قائم کردیا گیا۔

لاہور جنرل ہسپتال اور جناح ہسپتال سے اکٹھی کی گئی معلومات کے مطابق زخمیوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی۔

مزید پڑھیں: لاہور: فیروز پور روڈ پر خودکش دھماکا

دھماکے کے نتیجے میں 18 سالہ جمیل کی ٹانگ فریکچر ہوگئی، انہوں نے بتایا کہ وہ ایک پان کی دکان کے باہر کھڑے تھے کہ ایک زوردار دھماکا ہوا۔

جمیل نے بتایا، 'میں چھپنے کے لیے بھاگا اور جیسے ہی فیروز پور روڈ پر پہنچا، دھماکے کی شدت سے ایک شخص اپنی گاڑی پر کنٹرول کھو بیٹھا اور اس نے مجھے بری طرح ٹکر ماردی'۔

18 سالہ جمیل کے مطابق 'میں وہ مناظر کبھی نہیں بھول سکتا، جب بہت سارے لوگ زخمی حالت میں پڑے ہوئے تھے اور ان میں سے کچھ جاں بحق ہوچکے تھے'۔

لاہور جنرل ہسپتال کے باہر اپنے پیاروں کی تلاش میں آنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی—۔فوٹو/ وائٹ اسٹار
لاہور جنرل ہسپتال کے باہر اپنے پیاروں کی تلاش میں آنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی—۔فوٹو/ وائٹ اسٹار

ایک ضعیف العمر خاتون سامعہ بی بی لاہور جنرل ہسپتال کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں اپنے بیٹے کی تلاش میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھیں۔

انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے بیٹے عمر دراز نے انہیں دھماکے کے مقام سے فون کیا اور بتایا کہ وہ بھی زخمی ہوا ہے، لیکن اس کے بعد سے اس کا فون مسلسل بند ہے.

اُس پریشان حال ماں نے بتایا کہ 'دھماکے کی خبر ہم پر ایک بم کی طرح آکر گری، لیکن جب ہم نے اس سے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو اس کے فون سے جواب موصول نہیں ہورہا'۔

سامعہ نے ڈیوٹی ڈاکٹرز کو بتایا کہ وہ جناح اور سروسز ہسپتالوں میں بھی اپنے بیٹے کو تلاش کرچکی ہیں، لیکن انہیں اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔

تاہم کوششوں کے بعد ڈاکٹرز سامعہ بی بی کو ان کے بیٹے سے ملوانے میں کامیاب ہوگئے جو کہ ایمرجنسی وارڈ کے میڈیکل یونٹ میں زیرعلاج تھا۔

عمر دراز کو سینے اور سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں، تاہم اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور دھماکا: 'دہشت گردوں نے آسان ہدف کو نشانہ بنایا'

قصور کے رہائشی ایک اور زخمی خالد نے میڈیا کو بتایا کہ وہ گرین ٹاؤن میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے لاہور آئے تھے۔

خالد نے بتایا، 'میں بس سے اترا اور گرین ٹاؤن جانے کے لیے ارفع کریم ٹاور کے قریب کسی وین کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک زوردار دھماکا ہوا'۔

خالد کے مطابق ایک لمحے کے لیے انہیں کچھ ہوش نہ رہا اور جب وہ ہوش و حواس میں واپس آئے تو انہیں دھماکے کا علم ہوا اور ان کے اردگرد بہت سے زخمی موجود تھے۔

انہوں نے بتایا، 'پھر مجھے ریسکیو اہلکار ایک ایمبولینس کی طرف لے کر گئے جہاں پہلے ہی 2 افراد متعدد زخموں کے ساتھ موجود تھے'۔

جناح ہستال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سہیل ثقلین نے بتایا کہ ان کے ہسپتال میں 13 زخمی اور اتنی ہی لاشیں لائی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ زخمیوں میں سے صرف ایک شخص کی حالت تشویش ناک تھی جبکہ دیگر لوگوں کی حالت خطرے سے باہر تھی۔

دوسری جانب لاہور جنرل ہسپتال کی انتظامیہ کے مطابق ہسپتال میں صرف 3 ایسے زخمی لائے گئے، جن کی حالت تشویش ناک تھی۔


یہ خبر 25 جولائی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں