اسلام آباد: سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے سینئر افسران نے اپنے معطل کیے جانے والے سابق چیئرمین ظفر حجازی کو چوہدری شوگر ملز کیس کو بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے اور حراساں کرنے کا الزام لگایا ہے۔

ایس ای سی پی کے انٹرنل آڈٹ اینڈ کمپلائنز ڈپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ماہین فاطمہ نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس کو بتایا کہ ’14 جون کو مجھے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) سے بات کرنے کے لیے کمرے میں بند کردیا گیا اور انہیں شوگر ملز بند کرنے کے حوالے سے غلط بیان دینے کا کہا گیا‘۔

ایس ای سی پی کے حکام کا کہنا تھا کہ ظفر حجازی نے انہیں اپنے دفتر میں بلایا اور جون 2016 کو شوگر ملز کی تحقیقات کی فائل 2013 کی تاریخوں میں بند کرنے ہدایات دیں۔

کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے اور اس کی وجہ سے کوپریٹ دنیا پر غلط تاثر جائے گا، ’اس لیے کمیٹی نے ایس ای سی پی حکام کو یہاں طلب کیا ہے، جن کے بیانات شوگر ملز ریکارڈ میں ٹمپرنگ سے متعلق جے آئی ٹی نے ریکارڈ کیے‘۔

کمیٹی کی جانب سے طلب کیے گئے ایس ای سی پی کے افسران میں کمپنی لاء ڈویژن کے کمشنر طاہر محمود، ماہین فاطمہ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ایچ او ڈی انشورنس ڈویژن علی عظیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ایچ او ڈی کمپنی لاء ڈویژن عابد حسین شامل تھے۔

تمام افسران نے بتایا کہ چوہدری شوگر ملز کے حوالے سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات ایس ای سی پی کے ایکٹ 2011 کی دفعہ 263 کے تحت شروع کی گئی تھیں۔

جب سینیٹر مانڈوی والا نے پوچھا کہ اس کیس کو پرانی تاریخوں میں بند کرنے سے کس کو فائدہ پہنچا؟ جس پر طاہر محمود نے کہا کہ معطل چیئرمین ایس ای سی پی کا کہنا تھا کہ مذکورہ فائل کے رواں سال 2016 میں بند ہونے سے ملز مالکان کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

عابد حسین کا کہنا تھا کہ مذکورہ فائل کو پرانی تاریخوں میں بند کرنے کا ممکنہ مقصد پاناما پیپرز لیکس کے حوالے سے تھا۔

علی عظیم کا کہنا تھا کہ ’چیئرمین آفس میں داخل ہونے پر ظفر حجازی نے ان کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کیس میں برطانوی حکام کو خط لکھنے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور بری طرح پیش آئے، جس کے بعد انہوں نے مجھے مذکورہ فائل پرانی تاریخوں میں بند کرنے کی ہدایت کی‘۔

ماہین فاطمہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ظفر حجازی نے انہیں زبردستی تین گھنٹے کے لیے جے آئی ٹی کے سامنے بیان دینے کے لیے ایک کمرے میں بند کردیا، ’انہوں نے مجھے بلکل مختلف بیان جے آئی ٹی کو دینے کے لیے دباؤ ڈالا اور مجھے اپنی سابقہ بیان کو بدلنے کا کہا‘۔

ماہین فاطمہ کا مزید کہنا تھا کہ میرے ساتھیوں کی مداخلت پر مجھے کمرے سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔


یہ رپورٹ 28 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں