بھارت کی اعلیٰ عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں مسلمان مردوں کی جانب سے ایک ہی وقت میں 3 طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دے دیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کے ایک پینل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تین طلاق کا عمل مذہب میں لازم نہیں اور اخلاقی طور پر یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔

اس عمل سے متاثرہ خواتین نے سپریم کورٹ سے اس پر مکمل پابندی کے لیے پٹیشن دائر کی تھی۔

خواتین کا کہنا تھا کہ مسلم پرسنل لاء ایپلی کیشن ایکٹ، جو شریعت کے قانون کے تحت اور تین طلاق سے متعلق ہے، کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: ہندوستان:مسلم خواتین کی 3بار طلاق کےخلاف جدوجہد

خیال رہے کہ مسلم قوانین کے مطابق خاوند اپنی اہلیہ سے رشتہ ختم کرنے کے لیے 3 مرتبہ طلاق کے الفاظ کہتا ہے تاہم اس حوالے سے مسلم اسکالرز میں متضاد رائے پائی جاتی ہے، کچھ کا ماننا ہے کہ مرد کی جانب سے ایک ہی مرتبہ طلاق کے الفاظ تین مرتبہ کہنے سے یہ رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔

تاہم دیگر کا ماننا ہے کہ اسلامی شریعت کی روح سے 3 طلاق کے درمیان مخصوص عرصہ درکار ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے حکومت سے ملک کی مسلم کمیونٹی کی شادی اور طلاق سے متعلق 6 ماہ میں قانون سازی مکمل کرنے کو کہا ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ایک ساتھ 3 طلاق کا عمل مسلمان خاتون کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو ناقابل یقین حد تک شادی کے اختتام کا عمل ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پینل میں بھارت میں بسنے والے بیشتر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ججز موجود تھے جن میں ہندو، مسلمان، سکھ، مسیحی اور دیگر شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مذہب کے تحت کیا جانے والا گناہ قانون کے تحت مؤثر نہیں ہوسکتا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوائلٹ کی عدم موجودگی پر بھارتی خاتون نے طلاق لے لی

اس عمل کے حوالے سے موجود ملک کے قانون کے مطابق مسلمان مرد ایک ہی وقت میں تین مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال کرکے اپنی اہلیہ سے رشتہ ختم کرسکتا ہے۔

بھارت میں رہنے والی اقلیتوں، جن میں 15 کروڑ 50 لاکھ مسلمان بھی شامل ہیں، اپنے ذاتی قوانین کے مطابق ان معاملات میں فیصلوں کے لیے آزاد ہیں، جس کا مقصد ہندو اکثریت والے ملک بھارت میں ان کی مذہبی آزادی تسلیم کرنا ہے۔

ادھر ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی نے اس اہم کیس میں پٹیشن دائر کرنے والوں کی حمایت کی تھی، جس کا مقصد تین طلاق کو غیر آئینی اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دینا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں